تاریخ کے جھروکوں سے

   

عثمان شہید ایڈوکیٹ
میں تاریخ انسانیت ہوں آج میں بڑے دکھی دل سے بھاری من سے بلکہ جذبات پرپتھر رکھ کر اپنے اورق کی چند جھلکیاں دکھا رہی ہوں تاکہ تمہیں احساس ہوجائے ،تمہاری ہمت جوان ہوجائے، شجاعت بے دار ہوجائے۔
ریاست مقدونیہ میں عام بچوں کی طرح ایک بچہ پیدا ہوا جو عام بچوں کی ہی طرح تھا لیکن شجیع ایسا کہ میں نے اسے اپنے آغوش میں لے لیا صرف تیس بتیس سال کی عمر میں ایسی ہمت ایسا حوصلہ اُس نے دکھا دیا ایسی دلیری کا مظاہرہ اُس نے کیا کہ میں نے اُسے سکندراعظم کا نام دیا ایک اور فاتح تیمور لنگ تھا جو زندگی بھر نرم گدوں پر نہیں سویا ہمیشہ پتھریلی زمین کو اپنا بستر بنایا ۔ دنیا فتح کی، ویسے دنیا میں کئی بہادر سورما آئے چلے گئے وہ عام انسان ہی تھے ہٹلر ، ٹو جو، مسولینی ، چرچل، ہلاکو ، چنگیز خان کتنے نام گنواؤں ، ہلاکو کی فوج تو اتنی بہادر تھی کی گھانس کھاکر گزارہ کرتی تھی انکی عورتیں بھی اتنی ہی بہادر تھیں کہ گھوڑے پر برق رفتاری سے سواری کرتی تھیں ۔گھوڑوں پر ہی بچوں کو جنم دیتی تھیں اور وضع حمل کے بعد کپڑے میں بچے کو لپیٹ کر پھر سواری کرتی تھیں ۔ یاد رکھو خدا دلیری شجاعت اور بہادری کا انعام دیتی ہے۔ دنیا بہادروں کی ہے ۔ اے اولاد آدم، اے معلم الملکوت ، اے مسجود ملائک کیا سمجھتا ہے تو اپنے آپ کو کیا بحرالکاہل کی موج ، کیا دریائے چناب کی لہر، کیا بجلی کی چمک جو سکنڈوں میں نگاہوں سے معدوم ہوجاتی ہے ،کیا پھولوں کی بھپن ،کیا کانٹوں کی چبن ،کیا دریا کی روانی ، کیا سمندر کی جوانی، کیا صفحۂ قرطاس پر لکھا ہوا حرف غلط ،کیا ہوا کے سامنے بھڑکنے والاچراغ ِ سحر، کیا مفلس کی جوانی، کیا ٹوٹے دل کی صدا ، کیا یتیم کی بددعا، کیا آنکھوں کا کاجل،کیا چوڑیوں کی کھنک، کیا پا ئل کی دھمک ،کیا ہونٹوں کی مسی،رخساروں کا غازہ یا رائی کا پربت آخر تو اپنے آپ کو سمجھ کیا رکھا ہے۔ اس کائنات میں تیری اہمیت کیا ہے۔میں پیار میں آپ سے گفتگو کرہا ہوں۔ ؎
پیار میں جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے پھر تم، تم سے تو ہونے لگی
یہ تو تو کرکے میں کسی کی بے عزتی نہیں کررہا ہوں میں پیار سے اپنوں کو سمجھا رہا ہوں اپنا لوہا منوالیں یہ کائنات صرف تیرے لئے وجود میںآئی ہے۔ تجھے خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہے۔ بندگانہ خدا کو سمجھانا ہے کہ
سورج کی روشنی تیرے لئے چاند کی چاندنی تیرے لئے سمندر کی گہرائی تیرے لئے دریا کی گیرائی تیرے لئے، آبشاروں کے جھرنے تیرے لئے ،ہواوں کو مسخر کردیا گیا تیرے لئے، پہاڑوں کو بنایاگیا تیرے لئے ، کھیتوں کو اُگایا گیا تیرے لئے بستیوں کو بسایا گیا تیرے لئے،لوہے کو موم بنایا تیرے لئے پھر بھی یہ کہتا ہے میں حقیر فقیر بل تقصیرہوں ہمت ،شجاعت ،بہادری،عزم، حوصلہ، ارادۂ منزل تیرا ورثہ ہے۔
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
زمانے کی زنجیروں کو اپنے شمشیرخارہ شگاف سے کاٹ ڈال زمانہ تیرے قدموں میں سجدہ ریز ہوجائے گا۔ ثابت کردے کہ تو آج بھی زمانے کی کلائی مروڑ سکتا ہے زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتا ہے وہ تو ہی تھا جس نے صرف ۵۰۰کی تعداد میں رہ کر ۲ لاکھ رومیوں کو دھول چٹادی تھی تاریخ تیری ہمت بے باکی بے جگری کے افسانے بیان کرتی ہے۔
کیا وہ فرشتے تھے؟ کیا وہ جن تھے؟ نہیں وہ بھی عام انسان تھے دو ہاتھ دو پیر اور ایک سر والے لیکن حوصلہ مندی کی ایسی تاریخ رقم کی کہ آج بھی دنیا حیران ہے طارق بن زیاد کی کمان میں صرف ۷۰۰ سپاہ نے اُنڈلس کے شہنشاہ روڈائک کی ایک لاکھ فوج کو ہرادیا وہ بھی گوشت پوست کے انسان تھے فرشتے نہیں ! ہاںمگر ایسے متقی پرہیزگار کے دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں، جنگ قندق کے موقع پر حضرت علیـؓ نے کافروں کے سب سے بڑے پہلوان کو صرف ایک وار سے دو ٹکرے کردیے بی بی سفینہؓ نے ایک لکڑی کی مدد سے ایک یہودی کو واصل جہنم کردیاتھا ؎
تاریخ کوآج بھی یاد ہے ذرا ذر ا
تمہیںیاد ہو کہ نہ یاد ہو
حضرت قعاقع ہمیشہ ننگے بدن صرف تہہ بند باندھ کر لشکر کفار کو چیر دیا کرتے تھے۔ ٹیپو سلطان کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ مرنے کے بعدبھی انگریز جنرل ان کی لاش کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتا تھا ۔ نواب سراج الدولہ کی بہادری سے صوبہ بنگال ڈرتا تھا، دور کیوں جاتے ہو حال ہی میں کرناٹک کی ایک شیرنی ایسی دھاڑ ماری کہ ساری دنیا دہل گئی ۔
موت سے کس کو رست گاری ہے
آج وہ تو کل ہماری باری ہے
مرد بن کر زمانے کا مقابلہ کریں اسی میں تمہاری نجات ہے۔