تا کہ دور فرما دے آپ کے لیے اللہ تعالیٰ جو الزام آپ پر (ہجرت سے) پہلے لگائے گئے

   

تا کہ دور فرما دے آپ کے لیے اللہ تعالیٰ جو الزام آپ پر (ہجرت سے) پہلے لگائے گئے اور جو ( ہجرت کے) بعد لگائے گئے اور مکمل فرما دے اپنے انعام کو آپ پر اور چلائے آپ کو سیدھی راہ پر۔ (سورۃ الفتح ۲) 
گزشتہ سے پیوستہ … حدیبیہ کے موقع جو صلح ہوئی، اس کی مشہور وفعات آپ سورت کے تعارف میں ملاحظہ کر چکے ہیں۔اس معاہدے پر سرسری نظر ڈالنے سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے بہت دب کر صلح کی ہے اور کفار اپنی من مانی شرائط منوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اسی وجہ سے لشکر اسلام کو ان شرائط کا جب علم ہوا، تو انہیں بہت گراں گزرا ۔ حضرت فاروق اعظم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جیسی ہستی بھی بےتاب ہوگئی۔بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر اپنی بےچینی کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حبیب (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:میں اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں اس کے حکم کی ہرگز مخالفت نہیں کروں گا اور وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں ہونے دے گا۔اور ایسا ہی ہوا کہ اس صلح کی وجہ سے فریقین میں جنگ بند ہوگئی۔ امن قائم ہوگیا۔ آمدورفت کی پابندیاں ختم ہوگئیں۔ مسلمانوں کو ان الزامات کی تردید کا سنہری موقع مل گیا۔ شکوک و شبہات کی کالی گھٹائیں چھٹ گئیں۔ حقیقت اپنے روئے زیبا کے ساتھ آشکارا ہوگئی۔ غلط پراپیگنڈے کے باعث دلوں پر جما ہوا غبار دور ہوگیا اور لوگ دھڑادھڑ دین اسلام کو قبول کرنے لگے ۔ چنانچہ اس واقعے کے صرف دو سال بعد حضور (ﷺ) فتح مکہ کی مہم کے لیے مکہ روانہ ہوئے تو دس ہزار جانباز اور سرفروش غلاموں کا لشکر جرار ہمرکاب تھا۔آپ ان آیات کو اب پھر پڑھیے۔ حقیقت حال روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گی۔