تبلیغی جماعت کے اجتماع کے بعد مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے کس طرح میڈہتھیار کے طور پر الفاظ کا استعمال کررہا ہے

,

   

نظام الدین میں بتایاجارہا تھا کہ مسلمانوں چھپے ہوئے ہیں۔ مگر مندر سے واپس لوٹ کر آنے والے ہندوؤں اور گردوارہ کے سکھوں کے متعلق کہاجارہا ہے کہ وہ ”پھنسے“ ہوئے تھے

نئی دہلی۔ پچھلے پندرہ دنوں سے مرکزی دھارے کے میڈیا اور سوشیل میڈیا دونوں پرہندوستان بھر میں سی او وی ائی ڈی 19کے سینکڑوں معاملات کا مارچ کے ابتدائی ہفتہ میں دہلی کے اندر منعقد ہوئے تبلیغی جماعت کے اجتماع کو ذمہ دار ٹہرانے کی خبریں شائع کی گئی ہیں۔ ایسے کئی الزامات ہیں جو ان کے خلاف عائد کئے گئے ہیں وہ بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں۔

وہیں تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے کئی ہمدردوں کا بھی یہ ماننا ہے کہ تقریب کی منسوخی کا کیوں فیصلہ نہیں کیاگیا‘ جبکہ ہندی اور انگریزی زبان کے نیوز پیپرس اس واقعہ کے حوالے سے ساری مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے والے الفاظ کا استعمال کیاہے۔

اس طرح کے نفرت پر مشتمل پیشکش کی وجہہ سے نہ صرف ہندوسان میں عالمی وباء سے لڑنے کی قابلیت بلکہ سماجی دھارے کو بھی نقصان پہنچے گا۔

نریندر مودی کی جانب سے 24مارچ کے روز 21دنوں کے لاک ڈاؤن کے پیش نظر سارے ملک میں لوگ پھنس گئے تھے کیونکہ ٹرانسپورٹیشن پر امتناع عائد کردیاتھا۔ اسکے علاوہ دہلی کے بنگلے والی مسجدمرکز میں تبلیغی ممبرس ہی پھنسے نہیں تھے‘ ہندو اور سکھ بھی دیگر مقامات پر پھنس گئے تھے۔

دہلی میں ہی مجنو کا ٹیلہ گرودوارہ میں 200سکھ پھنسے ہوئے تھے‘۔

جموں شہر میں ایک اندازے کے مطابق 400ہندو شردھالو جو واشنو دیوی مندر گئے تھے اپنے گھر نہیں پہنچ سکے کیونکہ ٹرین خدمات منسوخ ہوگئی تھیں۔

اس انسانی بحران کے وقت میں تاہم میڈیا نے اپنی رپورٹ مختلف آلات او رحکمت عملی کا سہارا لیا ہے۔

مختلف الفاظ اور مختلف باتیں
مسلمان جو نظام الدین مسجد میں پھنس گئے تھے ان کے متعلق ہندی نیوز ویب سائیڈس اور نیوز پیپرس نے چھپے ہوئے کی اصطلاح کا استعمال کیاتھا۔ اس ہیڈ لائنس کے ساتھ زی نیوز نے کہاکہ ”نظام الدین مرکز میں شرکت کے بعد 8مساجدوں میں 113لوگ چھپے ہوئے تھے“۔

اس طرح کے الفاظ کا استعمال ان مجرموں کے لئے کیاجاتا ہے جو گرفتاری کے خوف میں پولیس سے بچنے کے لئے چھپ جاتے ہیں یا پھر کوئی بندوق بردار حملہ کے چھپ کا بیٹھتا ہے۔

مثال کے طور پر اس نیوز رپورٹ میں وہ لفظ چھپا ہوا استعمال کیاگیا ہے ایسا ہے جیسے دسارا گھاٹی میں مہیندر پاسی اور اس کی گینگ ڈاکہ ڈالنے کے لئے چھپی ہوئی ہے۔

زی نیوز کی جانب سے اس ہیڈ لائن کا استعمال ایسا ہے جیسے جماعت ممبرس میں کچھ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں یہاں تک کہ مجرمانہ سرگرمیاں کررہے ہیں اور مسجد کا استعمال محفوظ جگہ کے طور پر کررہے ہیں۔

اپنی ہیڈ لائنس میں دی ہندوستان ٹائمز نے بھی اسی طرح کے الفاظ کااستعمال کیاہے۔ انہوں نے لکھا کہ”سی او وی ائی ڈی19:غیر ملکی 600تبلیغی کارکن دہلی بھر میں چھپے ہوئے ہیں اور گنتی کررہے ہیں“۔

مذکورہ انگریزی لفظ ”چھپا“ ہوا کی گونج انگریزی او رہندی دونوں اخباروں میں مشابہہ رہی ہے۔اس کے برعکس ویشنو دیوی مندر اور دہلی گردوارہ سے متعلق پروگراموں پر اسی ہفتہ کے خبروں پر مشتمل ہے۔

ان معاملات میں زیادہ تر اشاعت کرنے والے اداروں نے‘ پھنسے ہوئے لفظ کے استعمال کیاہے۔

اس پر این ڈی ٹی وی کی ہیڈ لائنس کاکہنا تھا کہ”کرونا وائرس لاک ڈاؤن: چار سو شردھالو ویشنو دیوی میں پھنس گئے‘ عدالت نے ان کی مدد کے احکامات جاری کئے“۔

ان الفاظ کی اصطلاح کا استعمال کچھ مختلف ہے۔ چھپے ہوئے کی طرح نہیں بلکہ مذکورہ لفظ کا استعمال خراب حالات میں مظلومیں کے پھنس جانے پر کیاجاتا ہے۔ مثا ل کے طور پر ہندی اُردو میں استعمال کیاجاتا ہے”لوگ جام میں پھنس ہوئے تھے“۔

اس کے علاوہ انگریزی روزناموں نے مختلف اندازمیں پھنسے ہوئے کا استعمال کیاہے۔ جیسے کے ہم جانتے ہیں الفاظ کا اثرلوگوں پر ضرورپڑتا ہے۔ وہیں الفاظ”چھپے ہوئے“ کا مسلمانوں کے لئے استعمال مسجد میں پڑھنے والوں کے اندر تبلیغی جماعت کے اجتماع کے متعلق برہمی کا سبب بنا‘ اور لفظ ”پھنسے ہوئے“ کا ہندوؤں اور سکھوں کے متعلق استعمال ان کے لئے ہمدردی پیدا کرتا ہے۔

اس طرح کے لسانی مثالیں سے ظاہر ہوتا ہے کہ زبانی استعمال سیاسی منشاء کو پورا کرنے کا مقصد پورا کرتا ہے۔

یہاں پر واضح طور پر مرکز میں مسلمانوں کے لئے پھنسے ہوئے لفظ کا استعمال ناگزیر تھا کیونکہ سفری تحدیدات عائد ہوگئے تھے مگر ایسا کیاجاتاتو اس کا مجرمانہ پس منظر کس طرح ظاہر ہوسکتا تھا۔ زبان رابطے کے لئے ایک ہتھیار سے کم نہیں ہے۔ یہ دوہری تلوار ہے۔

جو ملک کے سالمیت کے لئے نقصاندہ ہوسکتی ہے او راس کا استعمال سیاسی منشاء کی تکمیل کے لئے کیاجاسکتا ہے۔