ترنمول کانگریس کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں :جاگو بنگلہ

,

   

کلکتہ ہائی کورٹ کی سی بی آئی اور ایس آئی ٹی کو عبوری رپورٹ ڈیڑھ مہینے میں پیش کرنے کی ہدایت

کلکتہ ۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے ذریعہ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے بعد ہوئے تشدد کے واقعات میں قتل اور عصمت دری کی جانچ سی بی آئی کے سپرد کئے جانے کے بعد گرچہ ترنمول کانگریس کی جانب سے کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیاہے ۔تاہم حکمراں کے ترجمان اخبار جاگوبنگلہ کے اداریہ میں کہا گیا ہے کہ کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔کیوں کہ تشدد میں مرنے والے 21افراد میں سے 16کا تعلق ترنمول کانگریس سے ہے ۔ ہفتہ کو ترنمول کے اخبار میں ایک اداریہ نے دعویٰ کیا کہ کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعدبی جے پی کے بڑے الفاظ سامنے آرہے ہیں۔ ترنمول کانگریس پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت وقت آنے پر اس مسئلے پر اپنا موقف پیش کرے گی۔تاہم میں اعتماد کہہ سکتا ہوں کہ اس فیصلے سے ترنمول کانگریس کے لوگ اتنے پریشان نہیں ہیں کیوں کہ 16افراد ہمارے مرے ہیں۔تحقیقات کریں۔بی جے پی کی ہی حقیقت سامنے آئے گی۔ جمعرات کو ہائی کورٹ کی بڑی بنچ نے قتل، عصمت دری اور خواتین کے خلاف جرائم جیسے اہم الزامات کی تحقیقات کی ذمہ داری سی بی آئی کے سپرد کیا تھا۔ باقی الزامات کی تحقیقات کیلئے تین رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (SIT) کرنے کا اعلان کیا۔جس میں سومن مترا، سومن بالا اور رنبیر کمار شامل ہیں۔یہ جانچ عدالت کی نگرانی میں ہوگی اس لئے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کا تقرر کیا گیا ہے ۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے سی بی آئی اور ایس آئی ٹی کو عبوری رپورٹ 6 ہفتوں میں پیش کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ساتھ ہی ریاستی حکومت کو ہدایت دی گئی وہ جانچ میں تعاون کریں۔اس معاملے کی سماعت کیلئے ایک نئے بنچ کی تشکیل کی جائے گی اور اس معاملے کی اگلی سماعت 24اکتوبر کو ہوگی۔ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ریاستی حکومت کے قومی انسانی حقوق کمیشن کے خلاف تعصب کے الزامات کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ جاگو بنگلہ اخبار میں کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلہ پر کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے قومی انسانی حقوق کمیشن کے خلاف براہ راست تعصب کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ جاگو بنگلہ اخبار کے اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ پارٹی کا منشور ہے ۔ ہائی کورٹ پہلے ہی 10 غلطیوں کی نشاندہی کرچکا ہے۔
چکی ہے ۔ اگلے قانونی مرحلے میں اس کی مزید تصدیق کی جائے گی۔ یہ کہا گیا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن اپنی پسند کے پولس افسران کا تبادلہ کرسکتی ہے تو پھر تشدد کے واقعات کیلئے ریاستی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا کیسے جاسکتا ہے ۔ممتا بنرجی کے حلف لینے کے بعد تشدد کے واقعات نہیں ہوئے ہیں۔ خیال رہے کہ کلکتہ ہائی کورٹ کی ہدایت کے بعد قومی حقوق انسانی کمیشن کی ایک کمیٹی نے ریاست کا دورہ کرکے رپورٹ مرتب کی۔اس رپورٹ میں بنگال کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر قتل اور عصمت دری کے واقعات ہوئے ۔کئی معاملات تو رجسٹرڈ ہی نہیں ہوئے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی موجودہ صورتحال میں قانون کی حکمرانی کے بجائے قانون پر حکمراں غالب ہیں۔” قتل اور عصمت دری جیسے واقعات ہوئے ہیں۔ لوگوں کو بے گھر ہونا پڑے گا۔ اس طرح کے تشدد کی کارروائیوں پر فوری طور پر قابو پایا جانا چاہیے ۔ اگر اس تشویشناک صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو ہندوستانی جمہوریت کیلئے موت کی گھنٹی ہے ۔ تشدد دیگر ریاستوں میں بھی پھیل جائے گا۔ رپورٹ میں سی بی آئی جانچ کی سفارش بھی کی گئی ہے ۔ اگرچہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی سفارش کو عدالت نے عملی طور پر قبول کرلیا، جسٹس اندراپرسن مکھرجی نے کہا کہ کمیشن کی تشکیل کردہ کمیٹی کو سفارشات دینے کی ذمہ داری نہیں دی گئی۔ لہذا رپورٹ کا وہ حصہ جس میں سفارش ہے وہ قانون کی نظر میں درست نہیں ہے ۔