ترکی اور یونان میں زلزلے

   

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
ان کو زبان ملی تو ہمیں پر برس پڑے
ترکی اور یونان میں زلزلے
یونان اور ترکی میں زلزلہ اور اوسط درجے کا سونامی ایک افسوسناک خبر ہے۔ اس طرح کے واقعات ایک ایسے وقت ہوئے ہیں جب ترکی اسلام دشمن طاقتوں سے نبردآزما ہے۔ ترکی کے شہر ازمیر میں شدت کے ساتھ زلزلہ آیا۔ تقریباً 26 جانیں ضائع ہوئی۔ ترکی کے صوبہ ازمیر اور سمیوس میں زلزلے کے جھٹکوں کے بعد دو چھوٹے درجے کے سونامی کا آنا ایک اور مصیبت تھی۔ عمارتیں تاش کے پتوں کی طرح ڈھیر ہوگئیں۔ بچاؤ کاری عملہ کی جدوجہد اور ملبہ میں دبے افراد کو نکالنے کی کامیاب کوشش قابل ستائش ہے۔ تقریباً 30 لاکھ آبادی والے ترکی کے تیسرے سب سے بڑے شہر ازمیر کے شہریوں کو خوف و ہراس میں سڑکوں پر بھاگتے ہوئے دیکھا گیا۔ کم از کم 20 عمارتیں تباہ ہوئی ہیں۔ صدر رجب طیب اردغان نے متاثرین کی مدد کیلئے ہر ممکنہ کوشش شروع کی ہیں۔ یونان میں بھی زلزلے سے بندرگاہ سمیوس میں سونامی کے بعد کئی عمارتیں زیرآب آنا ایک آفت سے نکل کر دوسری آفت کا سامنا کرنا مقامی شہریوں کیلئے واقعی افسوسناک صورتحال ہے۔ ترکی اس وقت ساری دنیا کی بڑی طاقتوں کی اسلام دشمنی کا مقابلہ کررہا ہے۔ ترکی کے خلاف بعض طاقتیں اندر ہی اندر خفیہ منصوبے بنارہے ہیں لیکن ترکی کو اس وقت تباہ کن منصوبوں کو تیار کرنے والوں سے چوکس رہنا ہوگا۔ ملکوں میں اختلافات کچھ بھی ہوں۔ یہ ایسا وقت ہے جب تمام انسانوں کو مدد کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ پڑوسی ملکوں یوروپی یونین کو ترکی کی مدد کیلئے آگے آنا چاہئے۔ ترکی میں آئے زلزلہ کے بارے میں زلزلہ پیما عہدیداروں نے انہیں شدید قرار دیا۔ معاشی طور پر فکرمندی کا شکار ترکی اپنی گرتی کرنسی سے بھی پریشان ہے۔ سال 2020ء میں ترکی کو اپنی کرنسی کے استحکام کیلئے سخت جدوجہد کرنی پڑی لیکن افراط زر میں اضافہ نے ترکی کے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ ڈالر کے مقابل ترکی کرنسی میں شدید گراوٹ اور کورونا وبا کے باعث ابتری کا شکار معیشت نے اس تاریخی ملک کو کئی محاذوں پر حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ امریکہ میں صدارتی انتخاب اور یوروپ کے ساتھ ترکی کی کشیدگی کے باوجود صدر رجب طیب اردغان نے عوام پر منفی اثرات پڑنے سے روکنے کی ہر ممکنہ کوشش کی ہے۔ اللہ کے کہر نے ترکی کو زلزلہ اور سونامی سے دوچار کردیا۔ ترکی کے عوام کو اس مصیبت سے بچانے کیلئے دعائیں بھی کی جارہی ہیں۔ کرنسی کی گراوٹ نے معیشت کی کمر توڑ دی ہے۔ اس طرح ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں کمی کے پیچھے بعض عالمی طاقتوں کی سازشیں بھی کارفرما ہوسکتی ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کیلئے آواز اٹھانے صدر ترکی کے خلاف بڑی سازشیں ہورہی ہیں۔ ترکی کو ہر محاذ پر پریشان کیا جارہا ہے۔ سال 2023ء میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ہوئے معاہدہ کی تکمیل کے بعد ترکی ہر محاذ پر خودمکتفی ہوجائے گا۔ اس سے پہلے ہی ترکی کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ ترکی اور یونان میں آئے زلزلہ کے جھٹکے ویسے ایک معمول کی بات سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ترکی اور یونان دونوں فالٹ لائن پر واقع ممالک ہیں۔ یہاں زلزلے آنا معمول کی بات ہے۔ اس سال جنوری میں ترکی کے صوبے الازگ کے قصبے سیوراٹس میں بھی زلزلہ آیا تھا جس میں 30 افراد ہلاک 1600 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ سال 1999ء میں ترکی کے شہر استنبول کے قریب املب میں بھی شدید زلزلہ سے 17000 جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ ترکی اور یونان کو تازہ واقعات سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح پر امداد کی ضرورت ہوگی۔ تمام ممالک کو چاہئے کہ وہ اختلافات کو دور رکھتے ہوئے ترکی کے عوام کو راحت پہنچانے میں مدد کریں۔ یونان کے ساتھ اگرچیکہ ترکی کے باہمی تعلقات کشیدہ ہیں لیکن دونوں ملکوں کو اس وقت اختلافات بھول کر ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے۔ اظہاریگانگت ایک خوش آئند شروعات ہوتی ہے۔ صدر ترکی اور صدر یونان کے درمیان ٹیلیفون بات چیت کے بعد دونوں ممالک توقع ہیکہ اختلافات کو فراموش کرکے ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔
وادی کشمیر کو فروخت کرنے والی حکومت
وادی کشمیر کو جنت نشان سرزمین کہا جاتا ہے افسوسناک بات یہ ہیکہ یہاں کے قدرتی مناظر کو نظر لگانے والی طاقتوں نے آج اسی کو فروخت کرنے کی راہ ہموار کرلی ہے۔ برسوں سے خفیہ مشن پر کام کرنے والوں نے وادی کشمیر کو آج اس قدر کنگال اور لہولہان کرکے چھلنی کردیا ہے کہ یہ سرزمین برائے فروخت کے لئے رکھ دی گئی۔ مرکزی حکومت نے حال ہی میں ایک قانون منظور کراتے ہوئے کشمیر میں کسی بھی ہندوستانی شہری کو زمین خریدنے کی اجازت دیدی۔ آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے اصل مقاصد کے منصوبوں کے اندر پوشیدہ راز دھیرے دھیرے سامنے آرہے ہیں۔ کشمیر میں مقامی افراد کو بے سہارا کردینے انہیں زمینات فروخت کرنے کیلئے مجبور ہونے کے حالات پیدا کرنے کے بعد قانون کا لانا ایک گھناؤنا دیرینہ منصوبہ کا ثبوت ہے۔ وادی کشمیر کے قائدین نے مرکز کے قانون کی مخالفت کی ہے لیکن ان کشمیری قائدین کی بات میں کوئی وزن نہیں ہوتا۔ مرکز انہیں خاطر میں نہیں لارہا ہے۔ اس کی اصل وجہ خود کشمیری قائدین ہیں جنہوں نے ماضی میں ادنیٰ، اقتدار کیلئے اپنے وقار اور امیج کو مرکز کے پاس گروی رکھ دیا تھا۔ آج بھی مرکزی طاقت کشمیری سیاسی قائدین کو ان کی اوقات دکھا کر اپنی من مانی کررہی ہے۔ آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے بعد ایک کے بعد دیگر نظربند ہونے والے کشمیری قائدین کو چند ماہ بعد رہا کردیا گیا۔ یہ رہائی کس سیاسی سمجھوتہ کا حصہ ہے یہ تو بعد میں معلوم ہوگا فی الحال رہائی کے بعد اب سیاسی قائدین کے جو بیانات رہتے ہیں اس سے مرکز کا کوئی نقصان ہونے والا نہیں ہے سرزمین کشمیر کو برائے فروخت کیلئے رکھا گیا ہے تو آنے والے دنوں میں کشمیر کی تمام سیاسی پارٹیاں اپنے وجود سے محروم اور عوام بے اختیار اور بے دست ہوجائیں گے۔ مرکزی اقتدار پر فائز طاقت اپنی دیرینہ پالیسی پر عمل آوری کے ذریعہ وادی کشمیر کو چند مخصوص بیوپاریوں کے حوالے کرنے کی راہ ہموار کی ہے تو پھر کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کی فکر اور سیاستدانوں کو اپنے وجود کی فکر کرنی ہوگی۔