!ترکی سے اختلاف

   

یہی ہے وقت کہ تکمیلِ آشیاں کرلیں
خزاں کے جاتے ہی فصلِ بہار سے پہلے
!ترکی سے اختلاف
ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کی عالم اسلام کے تعلق سے پالیسیوں نے یوروپی یونین کو بے چین کردیا ہے ۔ فرانس کے صدر امینول میکرون نے ’ بنیاد پرست اسلام ‘ کے خلاف جو بیان دیا تھا اس سے فرانس کے دفاع کے منصوبوں کا انکشاف ہوتا ہے ۔ ترکی کی حکمراں پارٹی کے ترجمان عمر سیلک نے فرانس کے پالیسیوں کی مذمت کی ہے ۔ فرانس کے بشمول کئی ممالک ان دنوں مخالف اسلام بیانات دے کر قوانین اور اعتقاد کی آزادی کی تذلیل کی ہے ۔ فرانس کے خیالات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ ایک ایسے وقت جب عالم اسلام کے اہم ممالک اسرائیل سے معاہدے کرتے ہوئے دنیا میں باہمی ہم آہنگی اور امن کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔ فرانس کے بشمول یوروپی یونین کے کئی ممالک کی پالیسیوں ہنوز عالم اسلام کے خلاف پروپگنڈہ کرنے کے لیے وضع کی جارہی ہیں ۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے ساری دنیا میں امن و امان کے لیے اپنی نیک نیتی پر مبنی پالیسی کو ایک سے زائد مرتبہ عالمی پلیٹ فارم پر منکشف کیا ہے لیکن بعض ملکوں کو ترکی کی پالیسیوں سے محض اس لیے اعتراض ہے کیوں کہ ان پالیسیوں میں امن کو اہمیت دی گئی ہے جو ممالک مسلم دنیا میں قیام امن کو پسند نہیں کرتے ان کا رویہ جارحانہ نوعیت کا ہوتا ہے ۔ ترکی نے جب سے لیبیا میں اپنی افواج تعینات کی ہیں ۔ یورپ کے بعض ملکوں کی نیندیں اڑ گئیں ہیں ۔ جنگ سے متاثرہ لیبیا میں ترکی کو اپنی فوج بھیجے ہوئے 10 ماہ ہوئے ہیں ۔ مشرق وسطی میں دیگر تنازعات کی طرح لیبیا میں ترکی کی فوجی موجودگی کو ایک بڑا مسئلہ بنادیا گیا تھا ۔ اب ایک اور مسلم ملک آذر بائیجان کے تعلق سے بھی ترکی کے موقف نے عیسائی غلبہ والے ملکوں کو مضطرب کردیا ہے ۔ آرمینیا نے آذر بائیجان کے بعض علاقوں پر قبضہ کر کے اپنا جارحانہ حملہ جاری رکھا ہے ۔ جب دنیا کی بعض طاقتوں کا ایجنڈہ یکطرفہ طور پر ظاہر ہونے لگے تو اس سے عالم اسلام اور مسلم دنیا کو لاحق خطرات کا اشارہ ملتا ہے ۔ آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان گذشتہ کئی برس سے علاقائی مسئلہ ہے اور یہ سرحدی تنازعہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں پایا جاتا ہے ۔ آرمینیا نے آذر بائیجان کے معاملے میں جو کچھ فوجی کارروائی کی ہے اس کی مذمت کرتے ہوئے صدر ترکی رجب طیب اردغان نے ایک مسلم حکمراں کے طور پر اپنا فرض پورا کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ کوشش یوروپ کو چراغ پا کر رہی ہے ۔ صدر فرانس کے حالیہ بیان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسلام کے تعلق سے کٹر موقف رکھتے ہیں اور ترکی کے صدر کے خلاف ان کی سوچ نے ان کے مخالف اسلام موقف کو واضح کردیا ہے ۔ جامع الازہر کے اسکالرز نے بھی ’ اسلام پسند علحدگی ‘ کے تعلق سے صدر فرانس کی تقریر کو نفرت انگیز قرار دیا ۔ آذر بائیجان کی حمایت کرنے والے ترکی کے ساتھ اگر یوروپ کے چند ممالک دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ اس خطہ میں برسوں سے ترکی کے خلاف پائے جانے والی تنگ نظری کا حصہ ہے ۔ ترکی کے لیے بظاہر ہمدردی اور دوستی کا مظاہرہ کرنے والے ملکوں نے درپردہ طور پر ترکی کو نقصان پہونچانے کی کوشش کی ہے ۔ ناٹو کے سکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے ترکی کو سلامتی میثاق کے لیے اس لیے اہم قرار دیا کیوں کہ ترکی نے ہمیشہ قیام امن دوستی باہمی مفاہمت کو ترجیح دی ہے ۔ مشرقی بحیرہ روم میں کشیدگی کسی بھی یوروپی ملک کے لیے مناسب نہیں ہے لیکن چند ملکوں کی مفاد پرستی نے مشرقی بحیرہ روم کا بھی مسئلہ چھیڑ دیا ہے ۔ اگر صدر ترکی رجب طیب اردغان نے انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم دنیا کے لیے ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے تو اس کی ستائش کی جانی چاہئے لیکن فرانس کے بشمول کئی ممالک اس وقت اپنے ایک مخصوص اور خفیہ منصوبے پر کام کررہے ہیں ۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترکی صدر کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے یہ ممالک اندر ہی اندر ایک بڑی طاقت کو مجتمع کررہے ہیں ۔ آذربائیجان اور آرمینیا کی کارروائی کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کیوں کہ چھوٹی چھوٹی کارروائیوں کے ذریعہ یوروپی اور عیسائی غلبہ والے ممالک اپنے غلبہ کو بڑھانا چاہتے ہیں ۔ آرمینیائی فوج نے براہ راست شہریوں کو ہدف بنانا شروع کیا ہے تو یہ مسلم کش کارروائی سمجھی جارہی ہے ۔ اس لیے صدر ترکی کو آرمینیا کے تعلق سے اپنی پالیسی مضبوط بنانی ہے ۔ جب تک آرمینیا قابض علاقوں سے دستبردار نہیں ہوتا ۔ آرمینیا کے ساتھ آذربائیجان کی جنگ بندی کا مطالبہ ناقابل قبول ہے ۔ ترکی نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا ہے اس لیے وہ یوروپ کی نظر میں کھٹک رہا ہے۔۔