تلنگانہ :اقلیتی بجٹ تجاویز میں کمی

   

آج گندی سیاست کا یہ حال ہے
دشمنوں کو گلے سے لگانا پڑا
تلنگانہ :اقلیتی بجٹ تجاویز میں کمی
تلنگانہ میںاقلیتی بجٹ کی تجاویز کو عہدیداروں نے ریاست کا مالیہ مستحکم نہ ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کم کردیا ہے ۔ بجٹ میں 2200 کروڑ روپئے کی تجاویز تیار کی گئی تھیں جنہیں محکمہ فینانس کی جانب سے گھٹا کر 1200 کروڑ روپئے کردیا گیا ہے ۔ ریاست میں کے سی آر حکومت کی جانب سے مسلمانوں سے ہمدردی کے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں۔ اقلیتی بجٹ میں اضافہ کے تعلق سے بھی کئی باتیں کی جاتی ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ ریاست میں اقلیتوں کیلئے جو بجٹ ہے وہ سارے ملک کی کسی اور ریاست میں نہیں ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو کو اقلیتوں کا مسیحا قرار دیا جاتا ہے ۔ بارہاان کی تعریفوں کے پل باندھنے سے گریز نہیں کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چیف منسٹر اقلیتوں کی تعلیمی ‘ معاشی اور سماجی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کیلئے تیار رہتے ہیں تاہم اب جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق اقلیتی بجٹ میں کمی کی جا رہی ہے اور یہ کمی اقلیتوں کیلئے لمحہ فکر ضرور کہی جاسکتی ہے ۔ جہاں تک تلنگانہ حکومت کی بات ہے تو یہ حقیقت ہے کہ حکومت کی جانب سے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے مسلسل دعوے کئے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اقلیتوں کیلئے ریاست میں زبردست اسکیمات ہیں جن سے اقلیتیں استفادہ بھی کر رہی ہیں۔ اب تک جو حالات سامنے آئے ہیں ان کے مطابق ریاست میں اقلیتوں کے ساتھ صرف زبانی جمع خرچ اور وعدے ہی کئے گئے ہیں اور حقیقی معنوں میں ان کی بہتری اور فلاح و بہبود کیلئے نمود کے اقدامات ہی ہوئے ہیں۔ جو وعدے کرتے ہوئے اقلیتوں کی تائید حاصل کی گئی تھی وہ اب تک پورے نہیں کئے گئے ہیں۔ سب سے اہم مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا وعدہ شائد حکومت فراموش بھی کرچکی ہے ۔ وقف کمشنریٹ بنانے کی بات بھی اب نہیں ہو رہی ہے اورا قلیتوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے بجٹ فراہم کرنے کی بات بھی ایسا لگتا ہے کہ حکومت یاد ہی نہیں کرنا چاہتی ۔ آبادی کے تناسب کے اعتبار سے بجٹ کی فراہمی تو دور کی بات جو تجاویز محکمہ کی جانب سے تیار کی گئی ہیں انہیں بھی تقریبا نصف تک گھٹانے کی تیاری ہو رہی ہے ۔تلنگانہ ریاست کی تشکیل اور ٹی آر ایس کے اقتدار میں یہ امید کی جا رہی تھی کہ اقلیتوں کے ساتھ انصاف کیا جائیگا ۔ ان کے اب تک جو حقوق تلف کئے گئے ہیں اور انہیں جس طرح سے تعلیمی ‘ معاشی اور سماجی اعتبار سے پسماندہ کردیا گیا ہے اس کا سدباب کیا جائیگا ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور ان کی تعریفیں کرنے والوں نے بھی یہی تاثر دیا تھا تاہم حقیقت اس کے برعکس ظاہر ہوتی جا رہی ہے ۔ عوام میں بھی یہ احساس بتدریج پیدا ہونے لگا ہے کہ ٹی آر ایس کے وعدے بھی دن کے خواب سے کم نہیں ہیں۔12 فیصد تحفظات اب شائد حکومت کے ایجنڈہ ہی میں نہیں رہ گئے ہیں۔ وقف کمشنریٹ تو دور کی بات ہے موجودہ وقف بورڈ میں ارکان کا تقرر بھی حکومت کے ذہن میں نہیں ہیں۔ آبادی کے تناسب سے بجٹ کی فراہمی بھی محض انتخابی جملہ بن کر رہ گئی ہے ۔ اب تک جو بجٹ فراہم کیا جاتا رہا ہے اس میںاضافہ کرنے کی بجائے اس کو گھٹانے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ یہ ریاست کی اقلیتوں کے ساتھ انصاف نہیں بلکہ بدترین ناانصافی ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت نے بھی اقلیتوں کے ساتھ وہی سلوک اختیار کرلیا ہے جو سابقہ حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ یہ کہا جاتا تھا کہ آندھرائی حکمرانوں نے مسلمانوں کے حقوق تلف کئے ہیں اور ٹی آر ایس حکومت میں انہیں تمام حقوق دئے جائیں گے ۔ تاہم ٹی آر ایس حکومت بھی سابقہ حکومتوں بے الگ نہیں رہ گئی ہے۔حکومت نے شائد یہ سوچ لیا ہے کہ اقلیتوں کے جو نمائندے ہیں انہیں مطمئن کرنا ہی کافی ہے اور ساری ریاست کے مسلمانوں کو صرف وعدوں اور تیقنات سے بہی بہلایا جاسکتا ہے اور جب کبھی عملی طور پرا قدامات کرنے کا وقت آئیگا اس وقت کوئی نہ کوئی عذر یا بہانہ پیش کردیا جائیگا ۔ تاہم حکومت کو یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ سماج میں مساوات اور انصاف لانا اگر ہے تو اقلیتوں کو ان کے حقوق دئے جانے چاہئیں۔ ٹی آر ایس حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ سابقہ حکومتوں کی طرح مسلمانوں کو صرف تسلی اور دلاسے دیتے ہوئے کام چلائیگی تو یہ اس کی بھول ہے اور اسے عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑیگا ۔ مسلمان اپنے ساتھ امتیازی سلوک کو مزید برداشت نہیںکریں گے ۔