تلنگانہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے قیام کا وعدہ وفا نہ ہوسکا

   

گچی باولی دواخانہ میں سہولتوں کا فقدان ، مریضوں کو مختلف امراض ، حکومت کے وعدہ پر عوام کے استفسارات
حیدرآباد۔ریاستی حکومت کی جانب سے شہر حیدرآباد میں کورونا وائرس وباء کے ساتھ ہی حکومت نے تلنگانہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے قیام کا اعلان کیا تھا اور کافی وقت گذرنے کے بعد ریاستی حکومت نے گچی باؤلی میں تلنگانہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کا آغاز کردیا لیکن اندرون ایک ماہ اس دواخانہ میں شریک مریضوں کیلئے مسائل پیدا ہونے شروع ہوگئے ہیں اورحکومت اور محکمہ صحت کی جانب سے ان مسائل کے اسی مقام پر حل کرنے میں معذوری کا اظہار کیا جا رہاہے ۔ تلنگانہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں چند یوم قبل آکسیجن کی قلت اور آکسیجن نہ ہونے کے سبب 30مریضوں کو گاندھی ہاسپٹل منتقل کیا گیا اور اب اس دواخانہ میں شریک کورونا وائرس کے متاثرین کو اعصابی ‘ قلب اور دیگر امراض کے علاج کی سہولت حاصل ہونے ہونے کے سبب انہیں نمس ‘ عثمانیہ اور دیگر دواخانوں کو منتقل کرنے کے اقدامات کئے جانے لگے ہیں۔کورونا وائرس کے متاثرین کے لئے حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے اس خصوصی دواخانہ میں موجود سہولتوں پر اب سوال اٹھائے جانے لگے ہیں کیونکہ تلنگانہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں شریک کئے جانے والے مریضوں کو ڈائیلاسس یا سی ٹی اسکان کی ضرورت پڑنے پر انہیں دوسرے دواخانوں کو لیجایا جانے لگا ہے جو کہ ان کیلئے مشکلات کا سبب بننے لگا ہے۔ حکومت تلنگانہ نے متعدد مرتبہ اعلانات اور کئی سہولتوں کے ساتھ کروڑہا روپئے کے اخراجات سے ا س دواخانہ کے آغاز کا فیصلہ کیا

لیکن دواخانہ میں مریضوں کے علاج کی سہولتوں کے سلسلہ میں کئے جانے والے اقدامات کے متعلق کوئی بھی مطمئن نہیں ہیں ۔ شہر حیدرآباد کے علاوہ رنگاریڈی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مریض جو اس دواخانہ میں کورونا وائرس کے علاج کیلئے شریک ہوئے تھے وہ اب پریشان ہیں کیونکہ دواخانہ میں بنیادی آکسیجن کی سہولت بھی موجود نہ ہونے کے علاوہ دیگر امراض کے علاج کی سہولت اور ماہرین کی عدم موجودگی مریضوں کے مسائل میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ مریضوں کے رشتہ داروں کا کہناہے کہ ریاستی حکومت کی جانب سے اس دواخانہ کی جتنی تشہیر کی گئی ہے دواخانہ کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو حالات اس سے کہیں زیادہ ابتر ہیں۔تلنگانہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں شریک ایک مریض کے رشتہ دار نے بتایا کہ اس دواخانہ اور کسی آئسولیشن مرکز میں کوئی خاص فرق نہیں ہے کیونکہ دواخانہ میں نہ ہی ماہرین موجود ہیں اور نہ ہی انفراسٹرکچر موجود ہے اسی لئے دواخانہ میں موجود عملہ کی جانب سے مریضوں کے رشتہ داروں کو یہ مشورہ دیا جانے لگا ہے کہ وہ نمس ‘ عثمانیہ یا گاندھی ہاسپٹل اپنے مریضوں کو منتقل کروالیں کیونکہ ماہر ڈاکٹرس کی عدم موجودگی انتہائی تکلیف دہ ہے۔