تلنگانہ میں این پی آر پر فی الحال عمل آوری نہیں ہوگی

,

   

موجودہ فارمٹ کے سی آر کیلئے ناقابل قبول، بجٹ سیشن میں باقاعدہ اعلان متوقع، مسلم قائدین کی جانب سے خیرمقدم

حیدرآباد۔ 27 فروری (سیاست نیوز) تلنگانہ میں این پی آر پر فی الحال عمل آوری نہیں ہوگی۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو نے شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف عوامی احتجاج کے پس منظر میں یہ فیصلہ کیا ہے۔ چیف منسٹر کے قریبی ذرائع نے اس بات کا انکشاف کیا اور بتایا کہ حکومت این پی آر موجودہ فارمٹ کے حق میں نہیں ہے اور گزشتہ مردم شماری کے سوالات کے ساتھ اس کام کی تکمیل کا منصوبہ رکھتی ہے۔ یکم اپریل تا 30 ستمبر کے دوران 45 دنوں تک ریاست میں مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ چیف منسٹر اسمبلی اجلاس میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف قرارداد کی پیشکشی کے وقت مرکز سے این پی آر کے موجودہ فارمٹ میں تبدیلی کا مطالبہ کریں گے۔ تلنگانہ میں متنازعہ این پی آر پر عمل آوری روکنے سے متعلق کے سی آر حکومت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے مختلف مسلم تنظیموں کے نمائندوں اور ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین نے آج وزیر داخلہ محمد محمود علی سے ملاقات کی اور چیف منسٹر کے فیصلے کو سراہا۔ ملک بھر میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج جاری ہے اور این پی آر کو ملک میں این آر سی کے نفاذ کی پہلی کڑی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ وزیر داخلہ محمود علی نے ملاقات کرنے والے قائدین پر واضح کیا کہ کے سی آر حکومت میں کسی بھی شخص کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تلنگانہ حکومت مرکز کے تمام فیصلوں پر عمل آوری کے لئے تیار نہیں ہے۔ حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پارلیمنٹ اور اس کے باہر اپنی رائے کا اظہار کردیا ہے اور قانون سے دستبرداری کے لئے اسمبلی میں قرارداد منظور کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ این پی آر کے بارے میں کئی شبہات پائے جاتے ہیں۔ مرکز نے مردم شماری کے لئے جو سوالنامہ مرتب کیا ہے اس سے تلنگانہ کو اختلاف ہے۔ انہوں نے مسلم نمائندوں پر واضح کیا کہ حکومت موجودہ فارمٹ میں این پی آر کے سوالنامے کو قبول نہیں کرے گی۔ مرکز پر دبائو بنایا جائے گا کہ سوال نامے کو تبدیل کرے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح بعض دیگر ریاستیں 2010ء کے سوالنامے کے بنیاد پر مردم شماری کا فیصلہ کرچکے ہیں، ٹی آر ایس حکومت بھی اسی طرز پر کسی تنازعہ کے بغیر مردم شماری کا کام انجام دے گی۔ اسمبلی کے بجٹ سیشن میں چیف منسٹر اس بارے میں اہم اعلانات کرسکتے ہیں۔ مغربی بنگال اور کیرالا کی حکومتوں نے این آر پی عمل انجام دینے کے خلاف فیصلہ کیا ہے۔ محمود علی نے کہا کہ تلنگانہ سکیولر ریاست ہے اور وہ بی جے پی ایجنڈے کو قبول نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ این پی آر کے بارے میں عوام میں جو غلط فہمیاں اور شبہات پائے جاتے ہیں حکومت اس سے اتفاق کرتے ہوئے متنازعہ امور کو این پی آر سے علیحدہ کرے گی۔ محمود علی نے مسلم جماعتوں اور تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ احتجاج کے سلسلہ میں پولیس سے بروقت اجازت حاصل کرے۔ بعض عناصر احتجاج کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرسکتے ہیں اور پولیس مکمل چوکسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ نئی دہلی کی طرح جوابی احتجاج کے ذریعہ امن و ضبط کو بگاڑنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت لا اینڈ آرڈر کے مسئلہ پر کوئی نرمی یا سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ اسی دوران بتایا جاتا ہے کہ این پی آر پر عمل آوری کے سلسلہ میں احکامات جاری کرنے والے سینئر آئی اے ایس عہدیدار پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت نے ان کا تبادلہ کردیا ہے اور عہدیدار کو ابھی تک کوئی نئی پوسٹنگ نہیں دی گئی۔ عہدیدار کے احکامات کی بنیاد پر محکمہ تعلیم اور کئی ضلع کلکٹرس نے این پی آر پر عمل آوری کے احکامات جاری کئے تھے۔