تلنگانہ میں شراب کی دکانات اور بارس میں غیر معمولی اضافہ

   

ٹی آر ایس حکومت کے فیصلوں کا نتیجہ، کانگریس ترجمان ڈی شراون کا ردعمل

حیدرآباد/24 اگسٹ، ( سیاست نیوز) آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ترجمان ڈاکٹر ڈی شراون نے الزام عائد کیا کہ ٹی آر ایس حکومت کے غیر دانشمندانہ فیصلوں کے نتیجہ میں ریاست میں شراب کی دکانوں، بارس اور شراب کے مراکز میں اضافہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ریاست کو ملک کی سب سے سرگرم رہنے والی ریاست ہونے کا دعویٰ کررہی ہے لیکن اس کے ساتھ شراب کی دکانوں ، بارس میں تیزی سے اضافہ ہوچکا ہے۔ ریاست میں جس طرف دیکھیں شراب عام ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا حکومت اس سماجی برائی پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر شراون نے میڈیا کے بعض گوشوں میں شائع شدہ خبروں کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ آندھرا پردیش میں نشہ بندی کے سبب تلنگانہ میں شراب کی فروخت میں اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ ریاست میں میونسپلٹیز اور میونسپل کارپوریشنس کی تعداد میں اضافہ کیا گیا جس کے سبب دکانات میں اضافہ ہوا ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آندھرا پردیش میں شراب کے کاروبار سے وابستہ افراد تلنگانہ منتقلی کی تیاری کررہے ہیں۔ موجودہ ایکسائیز پالیسی جس کے تحت شراب کی دکانات کے پاس قیام کی اجازت دی جاتی ہے وہ 30 ستمبر کو ختم ہوجائے گی۔ حکومت کو 2019-21 کیلئے اکسائیز پالیسی کا اعلان کرنا ہوگا جس کا آغاز یکم اکٹوبر سے ہوگا۔ اس پالیسی کے تحت آئندہ دو برسوں کیلئے شراب کی دکانوں اور بارس کے قیام کی اجازت دی جائے گی۔ حکومت نے میونسپلٹیز اور میونسپل کارپوریشنس کی آبادی کے اعتبار سے دکانات و بارس کی منظوری دی ہے۔ 2017-19 کے تحت حکومت نے 2144 وائن شاپس، 840 بار اور 27 کلبس کی منظوری دی ہے۔ ریاست میں 68 میونسپلٹیز اور 6 میونسپل کارپوریشن ہیں۔ تاہم حکومت نے میونسپلٹیز کی تعداد کو 2018 میں بڑھاکر 142 کردیا ہے اسی طرح جولائی میں میونسپل کارپوریشنوں کی تعداد کو 6 سے بڑھا کر 13 کردیا گیا۔ حکومت کے اس فیصلہ کے نتیجہ میں شراب کی دکانات میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔ موجودہ صورتحال میں حکومت لائسنس فیس کو دوگنا کرنے کی تجویز رکھتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ریاستی حکومت کو شراب کی دکانات کے قیام کیلئے درخواستوں کے ادخال کے وقت ناقابل واپسی رقم کے تحت 400 کروڑ روپئے کی آمدنی ہوئی۔