تلنگانہ میں فرقہ پرست تنظیموں کی سرگرمی‘ نفرت کی مہم تیز‘ حکومت کی خاموشی

,

   

حلال جہاد کے نام پر بدرو کالج میں ہند و جناجاگرتی کی کتاب کا رسم اجراء

فرقہ پرستی کی جو جڑیں شمالی ہندوستان میں پھیلائی گئی تھیں ان کی رسائی اب ملک کی جنوبی ریاستوں میں تیزی کے ساتھ پھیلتی نظر آرہی ہیں۔

ریاست کرناٹک میں پچھلے دس سالوں میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے جوڑی ہر چیز پر جہاد کا ٹیاگ لگاکر مسلمانوں کی معیشت کو منظم انداز میں کمزور کرنے کے بعد اب فرقہ پرست طاقتیں جنوبی ہندوستان کی دوسری ریاستوں بشمول تلنگانہ میں اپنی نفرت کی مہم کو تیز کرتی دیکھائی دے رہی ہیں۔

فرقہ پرست تنظیموں نے اپنے اس کام کو انجام دینے کے لئے ’جہاد‘ کی اصطلاح کا استعمال کیاہے اور ہر ایک چیز کے ساتھ جہاد کے لفظ کو جوڑ کر اکثریتی برداری کے اندر نفرت کے جذبات بھڑکانے کاکام کیاجارہا ہے۔

حالانکہ ریاست تلنگانہ میں اب تک فرقہ پرست اداروں او رتنظیموں کی یہ کوششیں ناکام رہی ہیں مگر جس تیزی کے ساتھ وہ نفرت کا بیج تلنگانہ میں بو رہے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں تلنگانہ بھی شمالی ہندوستان کی طرح فرقہ پرستوں کا مرکز بن جائے گا۔

اس کی ایک اور وجہہ یہ بھی ہے کہ حکومت تلنگانہ فرقہ پرستوں کی ایسی کوششوں کا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ماضی میں بھی متحدہ ریاست آندھرا پردیش میں وٹولی‘ بھینسہ کے جیسے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں مگر فرقہ پرست طاقتوں کی اس قدر ہمت نہیں ہوئی کہ برسرعام آکر نفرت انگیز تحریکات خطہ تلنگانہ میں چلائیں۔

اگر اس قسم کا کوئی پروگرام اعلان بھی کئے گئے تو انہیں منسوخ کرنے لئے ریاستی انتظامیہ نے مجبور کردیاتھا۔مگر پچھلے کچھ وقت سے تلنگانہ میں پھر ایک مرتبہ فرقہ پرست ذہنیت کے حامل لوگ کافی سرگرم ہوگئے ہیں۔

ایسے کئی پروگرام خاموشی کے ساتھ تلنگانہ میں منعقد کئے جارہے ہیں جس کا واحد مقصد تلنگانہ میں بھی فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دینا ہے۔ ایسا ہی ایک پروگرام اتوار11ڈسمبر کے روز بدروکا کالج میں ”حلال جہاد؟“ نام کی کتاب کے تلگو اڈیشن کی اجرائی پر مشتمل ہے۔

اس پروگرام کو ہندو جناجاگرتی کے زیراہتمام منعقد کیاجارہا ہے او را س کتاب کے مصنف بھی ہندو جنا جاگرتی کے قومی ترجمان رامیش شنڈے ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پروگرام میں حکومت آندھرا پردیش کے سابق چیف سکریٹری ایل وی سبرامنیم ائی اے ایس (ریٹائرڈ) اور سابق ڈی جی پیاور چیرمن روڈ اینڈ سیفٹی اینڈ اتھاریٹی حکومت تلنگانہ ٹی کرشنا پرساد‘ ائی پی ایس (ریٹائرڈ) کے نام مہمانان خصوصی کی حیثیت سے درج ہیں۔

حکومت کے اعلی عہدوں پر فائز رہنے کے بعد اس طرح کے پروگرام میں سابق سرکاری ملازمین کی شرکت کیا اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتی ہے کہ آیا جب یہ لوگ برسرخدمات تھے تو اسی سونچ او رنظریہ کے ساتھ انہوں نے اپنے امور انجام دئے ہیں؟۔

حکومت کے اعلی عہدوں پر فائز لوگوں کی کیایہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے تقاریب میں شرکت سے اجتناب کریں تاکہ نفرت کو ہوا دینے کی کوشش کرنے والوں کے حوصلوں کوکمزور کیاجاسکے؟۔

حلال کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے کیا یہ تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف سازشیں نہیں کررہے ہیں؟۔

واضح رہے کہ ہندو جناجاگرتی سمیتی کوئی ہندو مذہبی ادارہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی تنظیم ہے جو نفرت کے سہارے ملک میں ہندو بردران وطن کو متحدکرنے کا دعوی کرتی ہے اور اس کا یہ دعوی کس حد تک حقیقت پر مبنی ہے اس سے شمالی اور جنوبی ہندوستان کی ساری ریاستی حکومتیں اچھی طرف واقف ہیں۔

اگر حکومت تلنگانہ بھی ریاست میں امن وامان کو یقینی بنانے کے اپنے دعوؤں پر کاربند ہے اور نفرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت رویہ اختیارکئے ہوئے تو اس طرح کے تقاریب کے شہر میں انعقاد کوروکنے کاکام کرے۔ نفرت پھیلانے والوں پر شکنجہ کسنا حکومت او رشہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

سید اسماعیل ذبیح اللہ