تن پر رہے لباس نہ روٹی ہو پیٹ میں

   

حکومت میں ون میان شو …مودی کے بعد کون؟
کورونا کا خوف … مہنگائی عروج پر

رشیدالدین
سیاسی جماعتوں کی بقاء اور وجود کا انحصار مضبوط قیادت پر ہوتا ہے۔ قیادت مضبوط ہونے کے ساتھ دور اندیش ہو تو متبادل قیادت کو تیار کیا جاتا ہے تاکہ کسی ناگہانی کی صورت میں قیادت کا خلاء پیدا نہ ہو۔ کئی سیاسی جماعتوں کیلئے قیادت کے دنیا سے کوچ کرتے ہی زوال مقدر بن گیا۔ قیادت کے کمزور ہوتے ہی کئی پارٹیوں کا شیرازا بکھر گیا۔ پارٹی ہو یا خاندان دونوں کیلئے اہل قیادت کے ساتھ سکنڈ گریڈ لیڈر شپ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ سیاسی اور خاندانی نظام زوال سے دوچار نہ ہو۔ حالیہ برسوں میں ملک نے کئی پارٹیوں کا عروج اور زوال دیکھا ہے ۔ بی جے پی کو اگرچہ اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی کی قیادت میں اقتدار حاصل ہوا لیکن نریندر مودی کی قیادت میں پارٹی کو ناقابل تسخیر اکثریت حاصل ہوگئی ۔ واجپائی اور اڈوانی نے اپنے جانشین کے طورپر نریندر مودی کو تیار کیا تھا لیکن اقتدار کے حصول کے ساتھ ہی اپنے محسنوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ، وہ آخری سانس تک اڈوانی کو خون کے آنسو رلاتا رہے گا۔ اگر اٹل اور اڈوانی اپنے بعد کی قیادت کی فکر نہ کرتے تو مودی ۔امیت شاہ گجرات تک محدود رہتے۔ محسنوں اور سیاسی سرپرستوں کے ساتھ محسن کشی اور بے وفائی کے رویہ کے بعد شائد کوئی بھی اپنے جانشین تیار کرنے کی ہمت کرے گا۔ 2014 عام چناؤ سے لے کر کورونا وباء تک حکومت اور بی جے پی میں ون میان شو چل رہا ہے ۔ جمہوریت اور آمریت میں فرق یہی ہے کہ آمریت میں اقتدار حاکم اورحکمراں کے اطراف مرکوز ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں اقتدار غیر مرکوز ہوتا ہے ۔ مشاورت اور اتفاق رائے جمہوریت کی خوبی ہے ۔ نریندر مودی نے اس روایت سے انحراف کرتے ہوئے آمریت اور ڈکٹیٹرشپ کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ ابتداء میں بی جے پی کے اندرونی حلقوں اور کارکنوں میں مضبوط قیادت کا گمان غالب تھا لیکن اب یہ سوال کیا جارہا ہے کہ مودی کے بعد کون ؟ حکمرانی کا کوئی شعبہ ہو یا پھر پارٹی ہر سطح پر سوائے مودی کے کوئی دوسرا دکھائی نہیں دیتا ۔ گودی میڈیا ہو یا پھر سرکاری میڈیا دونوں مودی کے بھونپو دکھائی دے رہے ہیں۔ چیانلس پر سوائے مودی کی تصویر یا تقریر کے سواء کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ مودی ۔ہندوستان اور ہندوستان ۔مودی کی طرح ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔ گزشتہ 7 برسوں میں حکومت اور پارٹی میں متبادل قیادت تیار کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بی جے پی ہمیشہ ایمرجنسی کے حوالے سے اندرا گاندھی پر ڈکٹیٹرشپ کا الزام عائد کرتی رہی لیکن آج وہ خود کیا کر رہی ہے۔ دوسروں پر تنقید کرنے والے خود آمریت کی علامت بن چکے ہیں۔ معاملہ معیشت کا ہو یا صحت کا ، خارجہ پالیسی ہو یا داخلی سلامتی، تعلیم ہو یا اسپورٹس۔ ہر معاملہ میں نریندر مودی دنیا کو دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزارت میں شامل تمام وزراء برائے نام اور مودی عقل کل ہیں۔ حکومت ہو یا پارٹی ہر سطح پر مودی ہیرو اور دوسرے تمام زیرو ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹرس ڈے کے موقع پر بھی مودی ٹی وی چیانلس پر چھائے ہوئے تھے ، حالانکہ یہ کام وزیر صحت کا تھا جو دور دور تک دکھائی نہیں دیئے ۔ کچھ یہی حال دوسرے محکمہ جات اور شعبہ جات کا ہے، اگر مودی کا بس چلے اور دستور میں گنجائش ہو تو وہ کسی وزیر کے بغیر ہی ملک کے نظم و نسق کو چلائیں گے ۔ کورونا وباء کے علاج اور ٹیکہ اندازی کے معاملات میں نریندر مودی ایک وبائی ماہر کی طرح تبصرہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ معاملات وزیر صحت کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ بس اتنا کہنا کافی ہوگا کہ حکومت اور پارٹی مودی کے اطراف گھوم رہے ہیں۔ ہر کام کا کریڈٹ مودی کے سر جارہا ہے ۔ ظاہر ہے جب اچھائیوں کا کریڈٹ حاصل ہو تو پھر عوام کے مسائل میں اضافہ کا سبب بننے والی مہنگائی کا کریڈٹ بھی مودی کو ملنا چاہئے ۔ عمر کے اس حصہ میں جبکہ انسان طبعی عمر کو پہنچ جائے تو اسے ملک و قوم کیلئے متبادل قیادت کو تیار کرنا چاہئے۔ ہر شخص کو دنیا سے کوچ کرنا ہے اور نریندر مودی اپنی عمر کے لحاظ سے چراغ سحری ہیں جو کسی دن یکایک گل ہوجائے تو متبادل کون ہوگا ؟ اٹل اور اڈوانی کے دور میں قیادت کی اہلیت رکھنے والے افراد موجود تھے لیکن ان کے گزر جانے سے بی جے پی میں قیادت کا خلاء پیدا ہوچکا ہے۔ متبادل قیادت کے بارے میں کوئی سوچ رہا ہے یا نہیں یہ اہم سوال ہے ۔ مودی نے نظم و نسق اور پارٹی پر جس طرح اپنی گرفت مضبوط کی ہے، ان کے بعد شائد بحران پارٹی کا مقدر بن جائے گا ۔ جب سے کورونا منظر عام پر آیا ، لاک ڈاؤن ہو یا علاج کی سہولتیں حتیٰ کہ احتیاطی تدابیر کے طور پر ٹیکہ اندازی ، ہر معاملہ میں صرف مودی دکھائی دے رہے ہیں جن کی تعلیم اور سرٹیفکٹس کے بارے میں کئی شبہات پائے جاتے ہیں، وہ کبھی ڈاکٹر تو کبھی صحت کے ماہر کی حیثیت سے عوام کے درمیان نمودار ہوجاتے ہیں۔ جمہوریت میں اجتماعی فیصلے کئے جاتے ہیں لیکن ملک میں فرد واحد کی حکومت چل رہی ہے۔ مودی نے پارٹی اور حکومت میں باصلاحیت افراد کو ابھرنے کا موقع نہیں دیا ۔ مودی کی خوش قسمتی کہئے کہ اپوزیشن میں بھی کوئی متبادل نہیں ہے۔ بی جے پی ہو یا پھر اپوزیشن دونوں میں مودی کی قیادت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ جمہوریت کے مستقبل کے لئے یہ اچھی علامت نہیں ہے۔ کورونا کے سنگین بحران سے مودی تنہا نمٹ رہے ہیں۔ امیت شاہ جو ابتداء میں مودی کے دست راست اور وزیر باتدبیر تھے، انہیں بھی شائد ان کا مقام بتادیا گیا ہے۔
عوام ایک طرف کورونا سے خوفزدہ ہیں تو دوسری طرف بڑھتی مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقات کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کا اثر ہر گھر کے کچن پر کس طرح پڑتا ہے ، اس کا اندازہ تو اسی شخص کو ہوگا جو گھردار والا ہو۔ جس نے گھر سنسار کا سبق ہی نہ سیکھا ہو وہ آٹے دال کا بھاؤ کیا جانے۔ ہر کامیاب انسان کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہونے کی بات کہی جاتی ہے لیکن جس کی گھر والی ہی نہ ہو اور گھر والی کو اس کا جائز مقام دینے کے بجائے در در کی ٹھوکریں کھانے کیلئے مجبور کردیا جائے وہ شخص گھر کی ضرورت اور مسائل سے واقف کیسے ہوگا۔ ملک میں ایک وزیر فینانس ایسے بھی گزرے جو بجٹ کی تیاری سے قبل گھر والی سے کچن کے مسائل اور حکومت سے غریبوں اور متوسط طبقات کی امیدوں کے بارے میں گفتگو کرتے تھے۔ کورونا کے علاج کے اخراجات عوام کیلئے ناقابل برداشت ہیں تو دوسری طرف آٹا ، چاول ، دال ، تیل اور دیگر غذائی اجناس کی قیمتوں نے پکوان کا ذائقہ ہی چھین لیا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی توعوام فاقہ کشی پر مجبور ہوجائیں گے ۔ جس طرح کسی مہارانی نے اپنی غریب رعایا کو روٹی کے بجائے کیک کھانے کا مشورہ دیا تھا ، اسی طرح نریندر مودی عجب نہیں کہ ہر گھر کو تین وقت کے بجائے دو وقت کھانے کی صلاح دیں گے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کا بوجھ کیا کم تھا کہ حکومت نے پکوان گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔ سیاسی مبصرین کو حیرت اس بات پر ہے کہ قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی کے باوجود عوام میں کوئی احتجاج نہیں ہے۔ آخر عوام حکومت کے ہر فیصلہ کو کیوں تسلیم کر رہے ہیں ۔ سابق میں جب کبھی مہنگائی میں اضافہ ہوا ، عوام سڑکوں پر نکل آئے ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت نے کورونا کی آڑ میں قیمتوں میں اضافہ کا کھیل شروع کیا ہے ۔ عوام کو کورونا کا خوف دلاکر اپنے خسارہ کی تکمیل قیمتوں میں اضافہ کے ذریعہ کی جارہی ہے۔ علاج کی سہولتوں کے بجائے ویکسین کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے اب کورونا کی تیسری لہر کا خوف دلایا جارہا ہے ۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ ضروریات زندگی کے علاوہ قبرستان اور شمشان کے اخراجات میں اضافہ ہوچکا ہے۔ مہنگائی کا بہانہ بناکر قبرستان اور شمشان کے ذمہ داروں نے اپنے چارجس بڑھادیئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے مرکز کو کورونا سے فوت ہونے والوں کے پسماندگان کو معاوضہ کی ادائیگی کی ہدایت دی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوگا کہ سپریم کورٹ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے غریب خاندانوں کی مدد کو یقینی بنائے۔ موجودہ صورتحال میں مودی حکومت کے بے لگام ہونے کی اہم وجہ کمزور اپوزیشن ہے۔ کسی بھی جمہوریت میں اپوزیشن کا کمزور ہونا کسی عیب سے کم نہیں۔ کانگریس جو خود کو بی جے پی کا متبادل تصور کرتی ہے، اس کی صفوں میں اتحاد نہیں ہے۔ سینئر قائدین کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف بھائی بہن کی سیاست چل رہی ہے۔ تجربہ کار قائدین کو فراموش کرتے ہوئے ناتجربہ کار ٹیم کے ساتھ سوشیل میڈیا اور ٹوئیٹر پر حکومت سے لڑائی نہیں لڑی جاسکتی۔ کانگریس کے موجودہ حالات سے عوام خود بھی مایوس ہیں ، اگر یہی روش جاری رہی تو آئندہ انتخابات میں اقتدار توکجا اپوزیشن کا موقف بھی نہیں ملے گا ۔ ماہرین نفسیات کانگریس کی موجودہ صورتحال کو راہول گاندھی کے گھر بسانے سے جوڑ رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر راہول گاندھی کا گھر بسادیا جائے تو شائد وہ زیادہ سمجھداری اور سوجھ بوجھ کا مظاہر کرپائیں گے۔ منظر بھوپالی نے مہنگائی پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
تن پر رہے لباس نہ روٹی ہو پیٹ میں
مہنگائی اس طریقہ سے کم کر رہے ہو تم