توڑ پھوڑ کے واقعات اظہار خیال کی آزادی کے تحت نہیں۔ سپریم کورٹ

,

   

نئی دہلی۔ مذکورہ سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کے روز کہاکہ ہاوز میں عوامی املاک کو تباہ کرنا اظہار خیال کی آزادی کے مماثل نہیں ہے اور قانون سازوں کے لئے استثنیٰ کو کریمنل قوانین کے خلاف استثنیٰ قرارنہیں دیاجاسکتا ہے۔

مذکورہ اعلی عدالت نے کیرالا حکومت کی جانب سے دائرہ کردہ درخواست کو مسترد کردیا جس میں سی پی ائی (ایم) قائدین بشمول وزیر تعلیم وی سیوا کٹی کی جانب سے 2015میں جب موجودہ برسراقتدار حکومت اپوزیشن تھی اسمبلی میں کی گئی توڑ پھوڑ کے معاملات سے دستبرداری کی مانگ کی گئی تھی۔

جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ اور ایم آر شاہ پر مشتمل ایک بنچ اظہار خیال کی آزادی پر زودیتے ہوئے کہاکہ اراکین اسمبلی اور پارلیمان کو دئے گئے مراعات اور استثنیٰ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایوان کے اندر وہ اس استثنیٰ سے مجرمانہ کاروائی انجام دیں اور سنوائی کرنے والی عدالت ایف ائی آرسے دستبرداری کی درخواست کومسترد کرکے ایک درست کام کیاہے۔

بنچ نے مانا کہ”توڑ پھوڑ کی کاروائی عوامی خدمات اور نہ ہی اظہار خیال کی آزادی میں آتا ہے“۔ مذکورہ عدالت عظمیٰ نے کہاکہ سال2015میں ایوان اسمبلی کے اندر ہنگامہ کھڑاکرنے پر ایل ڈی ایف کے سابق اراکین اسمبلی کے خلاف مجرمانہ استغاثہ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

مذکورہ کیرالا حکومت نے پیش کیاتھا کہ ایوان نے 2015میں اسمبلی میں ہنگامہ کھڑا کرنے والے اراکین اسمبلی کے خلاف کاروائی مقدم کی ہے۔

سنوائی کے دوران جسٹس چندرا چوڑ نے سینئر وکیل رنجیت کمار جو کیرالا حکومت کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے تھے سے استفسار کیاکہ ”مان لیں ایک رکن اسمبلی میں ریوالور نکالر کر لہراتے‘ اور وہ ریوالوار خالی خالی ہوتا۔ کیاآپ کہتے کہ ایوان اس پر سب سے بڑا ہے؟“۔

مذکورہ بنچ نے واضح کیاکہ اسمبلی کے اندر ہتھیار رکھنا ممکن نہیں ہے‘ مگر عدالت میں معاملہ کی باریک بینی سے جانچ کے لئے اس مثال کا حوالہ دیاگیاہے۔

ان اراکین اسمبلی نے اسپیکر کی کرسی تباہ کردی‘ مائیک توڑ دیا‘ شہہ نشین اکھاڑ دی اور کمپویٹرس کو نقصان پہنچایاتھا۔.