تو اِدھر اُدھرکی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

,

   

راہول … پپو بن گیا ببر شیر
لوک سبھا … اپوزیشن کی اخلاقی جیت

رشیدالدین
’’تحریک عدم اعتماد‘‘ مرکز کی نریندر مودی حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد انڈیا نے اس دستوری سہولت سے استفادہ کیا۔ اپوزیشن کو پتہ تھا کہ تحریک عدم اعتماد کو بہرحال شکست ہوگی کیونکہ عددی طاقت کے اعتبار سے بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد کو لوک سبھا میں واضح اکثریت حاصل ہے۔ شکست کے یقین کے باوجود تحر یک عدم اعتماد کی پیشکشی کا مقصد حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم نریندر مودی کو خواب غفلت سے جگانا تھا۔ گزشتہ 9 برسوں کے دوران ملک میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور جارحانہ فرقہ پرستی کے واقعات کا لامتناہی سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ۔ مسلمانوں ، دلتوں اور قبائل پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ۔ خون ناحق بہایا گیا لیکن نریندر مودی کا ’’مون ورت‘‘ جاری رہا ۔ مودی نے ملک کے سلگتے مسائل پر کبھی من کی بات نہیں کی۔ نریندر مودی نے 9 برسوں میں کبھی بھی میڈیا کے سوالات کا سامنا نہیں کیا۔ امریکہ کے دورہ کے موقع پر جوبائیڈن پر اپنی قابلیت اور بہادری کا روک جتانے کیلئے میڈیا کے ایک سوال کا سامنا کیا تھا لیکن ایک ہی سوال نے ہوش ٹھکانے لگادئے تھے۔ ملک میں لوجہاد ، ماب لنچنگ ، مسلمانوں کے بائیکاٹ ، مخالف مسلم فسادات اور عبادتگاہوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن مودی نے کبھی بھول کر بھی لب کشائی نہیں کی۔ بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کے گھر اور دکانات پر بلڈوزر چلتے رہے۔ ہریانہ میں گجرات تجربہ کو دہرانے کی کوشش کی گئی۔ چلتی ٹرین میں محافظ کے بھیس میں قاتل نکلا اور تین مسلمانوں کو گولیوں سے بھون دیا۔ منی پور تین ماہ سے جل رہا ہے اور صورتحال بے قابو ہے۔ خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کے ویڈیوز وائرل ہوگئے۔ چیف منسٹر منی پور نے کہا کہ ایک نہیں ایسے واقعات 100 سے زائد رونما ہوچکے ہیں۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا لیکن نریندر مودی نے مذمت کا ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔ مودی کی خاموشی توڑنے اور حکومت کو نیند سے جگاتے ہوئے ملک و قوم کو سچائی سے واقف کرانے کیلئے تحریک عدم اعتماد کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ اپوزیشن اتحاد کا بھی مظاہرہ ہوا اور انہیں مودی اور بی جے پی کے خلاف جدوجہد کا حوصلہ ملا۔ تحریک پر مباحث کے دوران اپوزیشن نے ملک کے سلگتے مسائل کو پیش کیا لیکن حکومت اور برسر اقتدار پارٹی کا مظاہرہ مایوس کن رہا ۔ مسائل پر جواب دینے کے بجائے اپوزیشن اور راہول گاندھی کو نشانہ بنانے میں وقت ضائع کیا گیا ۔ وزیراعظم نے اپنے جواب میں حقیقی مسائل پر قوم کی کوئی رہنمائی نہیں کی۔ مودی نے ہمیشہ کی طرح اہنکار اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناکامیوں کی پردہ پوشی کی کوشش کی۔ تحریک عدم اعتماد کے دوران برسر اقتدار پارٹی دفاعی موقف میں دکھائی دے رہی تھی ۔ اپوزیشن اور خاص طور پر کانگریس پارٹی اور گاندھی خاندان کو ٹارگیٹ کیا گیا کیونکہ حکومت کو اسی خاندان سے خطرہ ہے ۔ ہریانہ ہو کہ منی پور دونوں بی جے پی زیر اقتدار ریاستیں ہیں اور ایک ریاست میں مسلمانوں کو تو دوسرے میں قبائل کے خلاف تشدد جاری ہے ۔ منی پور میں سیکوریٹی فورسس اور پولیس بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ اگر کسی اپوزیشن پارٹی کی حکومت ہوتی تو ابھی تک صدر راج نافذ کردیا جاتا لیکن منی پور کے حالات ملک میں قبائل کو خوفزدہ کرنے کی سازش ہے۔ ہریانہ میں فسادات میں جان و مال کے علاوہ مساجد کو نشانہ بنایا گیا ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ متاثر مسلمان ہوئے اور ان کی املاک پر بلڈوزر چلائے گئے۔ آخرکار عدالت کو مداخلت کرتے ہوئے بلڈوزر کو روکنا پڑا۔ اترپردیش میں یوگی نے بلڈوزر کارروائیوں کا آغاز کیا تھا جس کا تجربہ مدھیہ پردیش ، آسام ، کرناٹک ، مہاراشٹرا ، گجرات اور اتراکھنڈ میں کیا گیا ۔ ہریانہ میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کیلئے 3 اضلاع کی 50 پنچایتوں نے مسلم تاجرین کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ۔ ہریانہ کے جن علاقوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ، ملک کی آزادی کے لئے وہاں کے مسلمانوں نے عظیم قربانیاں دیں ۔ تقسیم ہند کے موقع پر یہاں کے مسلمانوں نے ہندوستان میں قیام کو ترجیح دی۔ نریندر مودی نے تقریباً دو گھنٹے پارلیمنٹ سے خطاب کیا لیکن وہ وزیراعظم سے زیادہ مہاراجہ دکھائی دے رہے تھے۔ منی پور جل رہا ہے لیکن نریندر مودی قہقہے لگاتے ہوئے منی پور کے مظلوموں پر ہنس رہے تھے۔ تقریر کا زیادہ تر حصہ کانگریس کو گالیاں دینے میں گزر گیا اور مودی خود کو ایک مظلوم کے طور پر پیش کرتے رہے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ نریندر مودی اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ سے خوفزدہ ہیں ۔ ایک گھنٹہ تک منی پور کے بارے میں کچھ نہیں کہا اور اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد رسمی طور پر منی پور کا حوالہ دیا۔ نریندر مودی نے لوک سبھا کو انتخابی ریالی میں تبدیل کردیا اور نہ صرف خود نعرے لگائے بلکہ بی جے پی ارکان بھی نعرے لگاتے رہے۔ جس مقصد سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اس بارے میں مودی نے عوام کو مایوس کردیا ۔ ملک کے عوام منتظر تھے کہ منی پور، ہریانہ کی صورتحال اور ٹرین میں دہشت گردی کے واقعہ پر مودی من کی بات کریں گے۔ مودی کو پاکستان سے کچھ زیادہ ہی محبت ہے اور انہوں نے پاکستان کا بھی خوب تذکرہ کیا۔
تحریک عدم اعتماد کو شکست یقینی تھی لیکن مودی حکومت لوک سبھا میں جیت کر بھی ہار گئی اور اپوزیشن ہارکر بھی جیت گئی ۔ تحریک عدم اعتماد پر مباحث اور وزیراعظم کے جواب کو اپوزیشن کی اخلاقی جیت کہا جاسکتا ہے کیونکہ ملک کے سامنے نریندر مودی کو نہ صرف منہ کھولنا پڑا بلکہ حقیقی مسائل سے ان کی عدم سنجیدگی واضح ہوگئی ۔ ملک کو کانگریس اور راہول گاندھی پر تنقید نہیں بلکہ منی پور اور ہریانہ کے حالات کی وجوہات جاننے میں دلچسپی ہے۔ راہول گاندھی 137 دن تک پارلیمنٹ کی رکنیت سے محرومی کے بعد سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت لوک سبھا میں داخل ہوئے۔ راہول گاندھی نے اپنی بحث میں یہ ثابت کردیا کہ وہ بھارت جوڑو یاترا سے قبل کے راہول گاندھی نہیں ہیں۔ بھارت جوڑو یاترا نے نہ صرف تجربہ فراہم کیا بلکہ ان کے اظہار خیال میں غیر معمولی پختگی اور گہرائی دکھائی دی۔ راہول نے اپنے ہر جملے کے ذریعہ لوک سبھا کے باہر سننے والے کروڑہا عوام کے دلوں میں جگہ بنالی ہے ۔ راہول گاندھی نے یہ ثابت کردیا کہ وہ ’’امول بے بی‘‘ نہیں رہے بلکہ جوان ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن کا ’’پپو‘‘ اب ’’ببر شیر‘‘ بن چکا ہے۔ راہول گاندھی کی تقریر کے خلاف کہنے کے لئے کچھ نہیں رہا تو خاتون ارکان کے ذریعہ ’’فلائینگ کس‘‘ کو تنازعہ کا سبب بنانے کی کوشش کی گئی۔ راہول گاندھی فلائینگ کس تنازعہ سے پریشان نہیں ہوئے اور آخرکار خاتون بی جے پی ارکان کو ناکامی ہوئی۔ یوں بھی فلائینگ کس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور نہ ہی کسی کی توہین ہے۔ دراصل وزیراعظم نریندر مودی ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہیں لہذا وہ فلائینگ کس کا مطلب نہیں سمجھ سکتے ۔ ویسے بھی جو شخص جس چیز سے محروم ہوتا ہے ، اس کا دشمن ہوتا ہے ۔ راہول گاندھی نے اپنی تقریر میں بھارت جوڑو یاترا کے تجربات کا نچوڑ پیش کیا۔ پارلیمنٹ کی رکنیت کی بحالی کے بعد ایک طرف بی جے پی راہول گاندھی سے خوفزدہ ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن اتحاد کو راہول کی شکل میں ایک بے باک قیادت مل گئی ہے۔ مبصرین کے مطابق راہول گاندھی نے خود کو وزیراعظم کے عہدہ کا حقیقی دعویدار ثابت کردیا ہے۔ راجیو گاندھی کی ہلاکت کے بعد سونیا گاندھی نے نہ صرف خود وزیراعظم کے عہدہ کو قبول نہیں کیا بلکہ راہول گاندھی کو بھی ذمہ داری نہیں دی کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ راہول تجربات کی بھٹی میں کندن بن جائیں ۔ سونیا گاندھی کی دور اندیشی آج درست ثابت ہوئی ہے۔ راجیو گاندھی کی ہلاکت کے بعد سونیا گاندھی کیلئے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہونے میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی لیکن انہوں نے دو مرتبہ اس عہدہ کی قربانی دیتے ہوئے سیاسی دور اندیشی کا ثبوت دیا۔ سپریم کورٹ نے ملک میں عدلیہ کی آزادی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے راہول گاندھی کی رکنیت ، ہریانہ میں بلڈوزر کارروائیاں اور منی پور کے حالات پر مودی حکومت کو آئینہ دکھایا ہے۔ ہندوستان میں بھلے ہی تحت کی عدالتیں حکومت کے دباؤ میں کام کریں لیکن سپریم کورٹ آج بھی آزاد اور خود مختار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمشنرس کے تقرر کے معاملہ میں مودی حکومت چیف جسٹس آف انڈیا کو علحدہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے ۔ پارلیمنٹ میں مودی کے جواب پر شہاب جعفری کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
تو اِدھر اُدھرکی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے