جذبہ ایثار و قربانی

   

آج عید الاضحی ہے ۔ یہ عید جذبہ ایثار و قربانی کی ایک ایسی عظیم الشان مثال ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے اسے رہتی دنیا تک کیلئے اپنے بندوں کیلئے ایک موقع بنادیا ہے کہ وہ اپنے جذبہ کے ذریعہ اللہ رب العزت کا رحم و کرم حاصل کرپائیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی خوشنودی کی خاطر اپنے لخت جگر اور فرزند دلبند حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کرنے پر رضـا مندی کا اظہار کیا تھا اور تیار ہوگئے تھے ۔ اللہ رب العزت کو ان کی نیت اور ان کا اخلاص اس قدر پسند آیا کہ مالک حقیقی نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی بجائے جنت سے ایک دنبہ روانہ کردیا اور اسمعیل علیہ السلام کو ذبح ہونے سے بچالیا ۔ اس واقعہ سے ایک بات پوری طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی کو بندوں کی نیت پتہ ہوتی ہے اور کسی بھی کام کا دار و مدار صرف نیت اور اخلاص پر ہی ہے ۔ آج ہم سنت ابراہیمی کی تکمیل کرتے ہوئے قربانی کا نظم کرتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سنت ابراہیمی محض ایک جانور کو ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ رب العزت کی خوشنودی کیلئے دنیا کی سب سے پسندیدہ اور عزیز شئے کو قربان کرنے کا نام ہے ۔ آج ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ہمیں نہ صرف ایک جانور کو اللہ رب العزت کی خوشنودی کیلئے ذبح کرنا ہے بلکہ ہمیں ساتھ ہی اپنی خامیوں کو بھی ختم کرنے کا عہد کرنا ہے ۔ ہمیں اپنا جھوٹی انا ‘ شان و شوکت اور غرور و تکبر کو بھی قربان کرنے کا عہد کرنا چاہئے ۔ ہمیں اپنے دنیاوی جاہ و جلال اور رتبہ کو ختم کرنے کا عہد کرنا ہے ۔ ہمیں عجز و انکساری کی ایک مثال پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم میں یہ جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اللہ کے حضور میں کامل طریقہ سے حاضر ہوجائیں۔ پھر اللہ کی جو مرضی ہوگی اس میں ہم اپنے آپ کو بآسانی خوش اور راضی رکھ پائیں گے ۔ اللہ کی رضـا میں اپنے آپ کو راضی رکھنا ہمارے اپنے لئے ہی ایک نعمت ہوگی اور اس نعمت سے ہم دونوں جہاں کی دولت اور عزت و عظمت سے سرفراز ہوسکیں گے ۔ ہم اپنی مرضی کو رب تعالی کی مرضی کے آگے قربان کردیں تب ہی ہمارے لئے حقیقی بقا ممکن ہوسکے گی ۔

اللہ رب العزت کا فرمان مقدس ہے کہ اللہ تک تمہارے جانور کا نہ خون پہونچتا ہے اور نہ ہی گوشت پہونچتا ہے بلکہ اللہ رب العزت تک بندوں کا تقوی پہونچتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان اٹل ہوتا ہے اور یہ ہمارے لئے ایک سبق بھی ہے کہ ہم اپنی نیتوں اور تقوی کو مستحکم بنائیں ۔ اپنی نیتوں کو اللہ کی مرضی کے آگے سرنگوں کردیں اور اللہ کی مرضی کو ہی قلب کی گہرائیوں کو قبول کرنے کیلئے اپنے آپ کو تیار کرلیں پھر ہم ساری دنیا میں اور انشاء اللہ آخرت میں بھی سرخرو ہوپائیں گے ۔ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر بے شمار نعمتوں کی بارش کی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان نعمتوں کو سمجھیں اور ان پر اللہ تبارک و تعالی کے حقیقی معنی میں شکرگذار بندے بننے کی کوشش کریں۔ آج عید قربان کے موقع پر ہم میں بھی وہ جذبہ ایثار و قربانی پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں قبولیت پا سکے ۔ ویسے تو ہمارا کوئی عمل اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سند قبولیت حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا اور ہم صرف اپنے رب پر یقین کے ساتھ اپنا کام کرسکتے ہیں۔ ہمیں آج کے دن یہ بھی عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ نے اگر ہمیں اپنی نعمتوں سے سرفراز کیا ہے تو اس کے ایسے بندوں کی خوشیوں کا بھی سامان کرینگے جو ان نعمتوں سے محروم ہیں۔ ہمیں ان نعمتوں پر غرور و تکبر کرنے کی بجائے شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ شکر اللہ کے محروم اور نادار بندوں کی مدد کے ذریعہ ہی ادا کیا جاسکتا ہے ۔ ہمیں ایسا کرنے کی تلقین بھی کی گئی ہے ۔

آج ساری دنیا میں جو حالات اور ماحول ہے اس میں بطور خاص ملت اسلامیہ کو اپنے کردار سے عملی نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں خود کو اپنے عمل سے خیر امت ثابت کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں اور ساری دنیا کے انسانوں کی بہتری اور فلاح کیلئے اپنے آٖپ کو وقف کردینے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں آج عید کے دن اپنے گناہوں سے توبہ کرنے اور اللہ رب العزت کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگنے کی ضرورت ہے ۔ ساری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں انہیں اپنے اخلاق و کردار سے ناکام بنانے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں آج کے دن اپنی انا ‘ اپنی جھوٹی شان و شوکت اور دنیاوی عیش و عشرت کی قربانی دینے اور اللہ کے حضور سرخرو ہونے کی ضرورت ہے ۔