جرمنی میں پہلی بار لاؤڈ اِسپیکر پر اذان کی اجازت

   

جرمنی بھر میں لگ بھگ 80 مساجد l مسلمان اپنی مسجدوں کیلئے مینار تعمیر کرسکتے ہیں
برلن میں”House of One”یہودیت ، عیسائیت اور اسلام تینوں کا مرکز

پروین کمال
آج کی یہ تحریر جرمنی میں ہونے والی چند ایک تبدیلیوں کے حوالے سے ہے، جسے پڑھ کر قارئین یقینا خوشی محسوس کریں گے۔ دراصل اس وقت جرمنی میں کچھ مذہبی تبدیلیاں کی جارہی ہیں جس کی وضاحت یہاں کی جارہی ہے۔ گزشتہ ادوار میں یہ ہوا کرتا تھا کہ کسی غیرمذہب کی عبادت گاہ کو اصل وضع قطع میں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی چنانچہ دین اسلام بھی ان اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ میں سکڑا ہوا تھا کیونکہ قوانین کی پابندی کرنا ہر شہری کا فرض ہے۔ اگرچہ یہاں مسجدیں ہوتی تو تھیں لیکن ان کی نوعیت بالکل مختلف تھی۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ گھروں کو مسجد کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ مینار کی شکل تک نظر نہیں آتی تھی۔ گھروں میں باجماعت نمازیں ادا کی جاتی تھیں لیکن تھوڑی سی تشنگی باقی رہ جاتی تھی۔ غرض مسلم برادری نے صبر کا دامن تھامے رکھا اور وقت یونہی گذرتا رہا، عبادتیں ہوتی رہیں، لیکن پھر حالات نے یوں کروٹ لی کہ مسجدوں کیلئے مینار کی اجازت دے دی گئی اور اب حالیہ موقف یہ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے کی اجازت بھی مل چکی ہے۔فی الحال جمعہ کی اذان اسپیکر پر دی جاسکتی ہے۔ یہ ایک بہت ہی خوش آئند بات ہے ۔ امید کی جارہی ہے کہ مستقبل قریب میں پانچوں نمازوں کیلئے بھی اسپیکر پر اذان کی اجازت مل جائے گی۔ اس وقت جرمنی کے چوتھے بڑے تاریخی شہر ’’کولون‘‘ کی سب سے بڑی مسجد کو اسپیکر پر اذان دینے کا اعزاز ملا ہے، اگرچہ کہ صرف جمعہ کو، لیکن ابھی تو ابتداء ہے، اس تبدیلی سے مسلمانان جرمنی میں جوش و مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے چنانچہ رواں سال اکٹوبر میں جمعہ کو پہلی مرتبہ اسپیکر پر اذان دینے کی ابتداء ہوچکی ہے۔ اذان کی آواز سن کر تمام مسلم باشندے لبیک کہتے ہوئے دوڑ پڑے اور یہ سلسلہ آگے چلتا رہے گا۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ غیرملکیوں کو تمام تر سہولتیں دینے کے علاوہ ان کے مذہب کا احترام کرنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ جرمن سماج مسلمانوں کو اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے اور مسلم برادری بھی یہ سوچ نہیں سکتی کہ وہ کسی غیرملک میں ہے۔ انہیں تو یہ احساس ہورہا ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کے کسی شہر میں آباد ہیں۔ کولون شہر میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے جس میں ترک نژاد افراد کی اکثریت ہے۔ پورے جرمنی میں 80 سے زائد مساجد ہیں۔ ان میں بہت ساری مساجد نے اسپیکر رکھنے کی اجازت حاصل کرنے کی درخواستیں دے رکھی ہیں۔ عنقریب انہیں اجازت مل جائے گی۔ غرض اس وقت یہاں کی مسلم آبادی اس تبدیلی سے بہت خوش ہے۔ انہیں اُمید ہے کہ ان کے باقی مطالبات پورے ہونے میں اب کوئی تاخیر نہیں ہوگی۔ ان حالیہ تبدیلیوں سے پہلے بھی جرمنی میں مسلمانوں کی بھلائی کیلئے کچھ دروازے کھولے گئے تھے۔ آج سے 16 سال پہلے ’’جرمن اسلام کانفرنس‘‘ قائم کی گئی تھی جس کا مقصد تھا کہ مسلم گروپوں کے نمائندوں اور جرمن ریاست کے مابین باقاعدہ مکالمات کا موقع دیا جائے اور ان کے مطالبات کی یکسوئی کیلئے کوئی بہتر راستہ تلاش کیا جائے جو موثر ثابت ہو۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی بڑی مہم جرمنی میں شروع کی گئی ہے جس کی پہنچ یوروپ کے علاوہ عالمی سطح تک ہوگی۔ مقصد یہ ہے کہ مذہبی نفرت ختم کی جائے، سب ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کریں۔ ہر انسان دوسرے انسان کو انسانیت کے نام سے پہچانے، دراصل مذہبی رواداریوں کو برقرار رکھے اور ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے جرمنی نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ اس مقصد کیلئے جرمنی کے صدر مقام برلن میں ایک ایسی عمارت کی تعمیر شروع کی گئی ہے جس کی چھت کے نیچے دنیا کے تین بڑے مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے ماننے والے عبادت کریں گے اور باہمی گفت و شنید سے ایک دوسرے کے مسائل بھی حل کریں گے۔ اس عمارت کا نام ہاؤز آف وَن (House of One) رکھا گیا ہے۔ یہودی رہنما نے اس عمارت کو ’’باہمی احترام کا گھر‘‘ نام دیا ہے جبکہ مسلمانوں کے امام نے ’’نور کا گھر‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ یہ عمارت کم و بیش تین چار سال میں مکمل ہوجائے گی اور مذہبی دنیا میں اس کا ایک خاص مقام ہوگا کیونکہ یہ کسی ایک مذہب کیلئے نہیں بلکہ تمام عالم انسانیت کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہوگا۔ اس کی اہمیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس عمارت کو مختلف حصوں میں جہاں مسلمانوں کی مسجد ہوگی، وہیں عیسائیوں کا گرجاگھر اور یہودی عبادت خانہ بھی ہوگا۔ اس مشترکہ عمارت کی تعمیر کا مقصد باہمی منافرت ، دشمنی اور جنگ و جدال جیسے حالات کو ختم کرنا ہے۔ مذہبی رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر یہ تینوں بڑے مذاہب یکجا ہوجائیں تو امن و آتشتی کی بنیادیں مضبوط ہوں گی اور انتہا پسند افراد کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوگی، کیونکہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مذہب کو ذاتی یا پھر یہ کہ سیاسی مقصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں تینوں مذاہب مستحکم ہوکر کام کریں تو امن قائم ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ اس پراجیکٹ میں خواتین بھی حصہ لے رہی ہیں۔ شہر برلن میں تین ایسی خواتین زور و شور سے آگے بڑھ رہی ہیں جو تین الگ الگ مذہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ایک مشترکہ ڈے کیر سنٹر قائم کیا جائے جہاں مذہب کا کوئی تفریق نہ ہو، بچے صحت مند ماحول میں پرورش پائیں اور ہر مذہب کا احترام کرنا سیکھیں، ان شیر خوار بچوں کی ذہنی تربیت شروع ہی سے کی جائے اور مذہب اور انسانیت کے صحیح معنی و مطلب انہیں سمجھایا جائے اور جب وہ سن شعور کو پہنچے تو اس بات کی گہرائی کو سمجھ کر دونوں کے ساتھ انصاف کرسکیں ۔ انسان جب اس دنیا میں آیا تھا تو وہ صرف ایک انسان کی حیثیت سے زمین پر اترا تھا۔ یہاں آکر اس نے اپنے عقائد کی بنیاد پر مذہب اپنایا جو تاحیات اس کے ساتھ رہے گا، لیکن انسانیت کے ناطے ہم سب ایک ہیں۔ اگر اس حوالے سے ایک دوسرے کیلئے دِلوں میں محبت کا جذبہ پیدا ہوجائے تو انسانی تاریخ کا یہ ایک سنہرا باب ہوگا اور اس دن دنیا جشن چراغاں منائے گی۔