جسٹس گوگوئی اور ہندوستانی عدلیہ کی حالت زار

   

اعجاز ذکا سید

میرے ایک قریبی ہندو دوست اکثر ہماری حکمراں جماعت بی جے پی کا بھارت جلاو پارٹی کہہ کر حوالہ دیتے ہیں اور جب بھی بی جے پی کے بارے میں کچھ کہتے ہیں پورے جوش اور جذبہ سے کہتے ہیں۔ آج بی جے پی اور اس کے رہنما جس انداز میں کام کررہے ہیں اور ان کی جانب سے جس قسم کی من مانی کی جارہی ہے خاص طور پر یہ جماعت اور اس کے قائدین ہندوستانی جمہوریت کو جیسے ڈھا رہے ہیں ایسے میں اپ یقینا میرے ہندو دوست کی جانب سے بی جے پی کو دیئے گئے نام (بھارت جلاو پارٹی) سے ضرور اتفاق کریں گے اور اسے اس نام کا مستحق بھی قرار دیں گے۔
گزشتہ ماہ دہلی میں قتل عام ہوا، زعفرانی جماعت نے ان فسادات کے دوران اپنی بدنامی کو پھر ایک بار منصفانہ اور واجبی قرار دیا۔ دہلی کے ان فسادات کو جس میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا 1984 کے مخالف سکھ فسادات کی طرح ہی دیکھا جارہا ہے۔ اُس وقت دارالحکومت دہلی میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو گزشتہ 6 یا اس سے زائد برسوں کے دوران اس ہندوتوا جماعت نے فراخدلانہ اور تمام کے لئے قابل قبول دستور ہند کو ایک منصوبہ بندانداز میں تباہ و برباد کرنے اپنے اختیارات و اقتدار کے تحت حاصل طاقت کے استعمال میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ اس جماعت نے ادارہ جاتی فریم ورک اور دستور میں عوام اور خود دستور کے تحفظ کے لئے تخلیق کردہ گنجائش کو تباہ کرنا شروع کیا۔ دستور سازوں نے ہمارے جمہوری وطن عزیز اور اس کے افسانوی مذہبی و تہذیبی تنوع کے تحفظ کے لئے اقدامات کئے تھے آئین بنایا تھا لیکن ہندوتوا کی حامی فورسس نے مملکت کے تمام شعبوں میں نظریاتی دراندازی کی جس میں بیورو کریسی سے لے کر پولیس اور سیکوریٹی فورسس بھی شامل ہیں۔ ان ہندوتوا طاقتوں نے دانشورانہ و نظریاتی پہلوؤں جیسے یونیورسٹیز، مفکرین و دانشوروں کے اداروں اور یہاں تک کہ ذرائع ابلاغ کو بھی زعفرانی رنگ میں رنگنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ فی الوقت پریوار کے اثر سے کوئی چیز یا کوئی ادارہ نہیں بچ پایا ہے۔ ایک طویل عرصہ سے ہم خود کو یہ سمجھاتے اور جھوٹی تسلی دیتے آئے ہیں کہ ہماری عدلیہ ان تمام تبدیلیوں کے باوجود چوکس ہے اور اقتدار کی چوکھٹ سے دور ہے۔ اسے اقتدار کا لالچ نہیں۔ ایک ایسا وقت بھی تھا جب ساری دنیا میں ہندوستانی عدلیہ کا احترام کیا جاتا تھا۔ اس کی غیر جانبداری اور منصفانہ رویہ پر رشک کیا جاتا تھا۔آج عدلیہ کی جو حالت ہے اور اس کے بارے میں جو تاثرات پائے جاتے ہیں اس پر ہم تمام بڑے بھولے بن کر تماشا دیکھتے رہے اور دیکھ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو حال ہی میں بی جے پی حکومت نے راجیہ سبھا کے لئے نامزد کیا۔ وہ بمشکل چار ماہ قبل ہی اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوئے تھے۔ ایوان بالا کے لئے ریٹائرڈ چیف جسٹس کو نامزد کرتے ہوئے بی جے پی نے جس شرمناک ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا اس سے لگتا ہے کہ اس کی ڈھٹائی اور بے غیرتی ایک نئی سطح پر پہنچ گئی۔ان واقعات اور تبدیلیوں سے اداروں کے مکمل تباہ ہونے اور ہمارے اداروں کے خود کو حوالے کردینے کا انکشاف ہوتا ہے۔جیسے کہ پرتاب بھانو مہتا نے انڈین اکسپریس میں شائع اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ہمیں حقیقت میں جسٹس گوگوئی کا شکر گذار ہونا چاہئے ان کے رویہ نے ہمیں ہندوستانی سپریم کورٹ کی قانونی حیثیت کے تعلق سے ہم میں پائے جانے والے طلسم کو توڑا ہے۔ وہم کو دور کیا ہے۔ جسٹس رنجن گوگوئی کی راجیہ سبھا کے لئے نامزدگی کے بارے میں حکومت نے عجیب و غریب استدلال پیش کرتے ہوئے اس کی مدافعت کی جبکہ جسٹس رنجن گوگوئی نے حکومت کی جانب سے راجیہ سبھا کے لئے ان کی نامزدگی کو قبول کرتے ہوئے بڑے بے شرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس طرح راجیہ سبھا کی رکنیت قبول کے انہوں نے نہ صرف خود اپنے دیئے گئے فیصلوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کردیئے بلکہ اپنے کردار، صداقت، دیانتداری راست بازی پر بھی شکوک پیدا کرنے کا باعث بن گئے۔ انہوں نے اپنے ساتھ تمام عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ شاید عدلیہ کے اہم ترین ادارہ کو کسی فرد واحد نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا ہو جتنا نقصان جسٹس گوگوئی نے پہنچایا۔ انہوں نے راجیہ سبھا کی رکنیت قبول کرتے ہوئے ایک طرح سے عدلیہ کو کمزور کردیا ہے۔ تاریخ میں یہ بات محفوظ رہے گی کہ جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں عدلیہ کمزور ہوئی۔ جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں ملک کے چند اہم مقدمات کی سماعت کی گئی اور فیصلے سنائے گئے۔ مثال کے طور پر بابری مسجد۔ رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ، رافل کرپشن معاملت، آسام این آر سی (جس کے نتیجہ میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر جیسے خطرناک تثلیث کی راہ ہموار ہوئی) اس کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی موقف کی منسوخی اور کشمیری قائدین کی گرفتاری سے متعلق ایسے مقدمات ہیں جن کے فیصلے حکومت کے حق میں دیئے گئے۔ ان تمام اور دیگر مقدمات میں جسٹس گوگوئی نے بار بار بی جے پی حکومت کی تائید و حمایت کی اور متاثرہ شہریوں کو نقصان پہنچایا۔ان تمام مقدمات میں سب سے زیادہ عجیب و غریب فیصلہ بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی ملکیت کا رہا۔ جس میں عدالت نے یہاں تک کہا تھا کہ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کی گئی تھی اور قانون کے خلاف تھی۔ عدالت نے صرف یہی کہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کو غلط طور پر ایک ایسی مسجد سے محروم کیا گیا جو 450 سال قبل تعمیر کی گئی۔ اس کے باوجود عدالت نے مسجد کے مقام کو اُن ہی ٹھگوں کو بطور تحفہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا جنہوں نے شہادت بابری مسجد کے گھناونے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔
ایسا فیصلہ صرف بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں ہی نہیں دیا گیا بلکہ کئی دوسرے فیصلوں میں جان بوجھ کر بے وقوفی کی گئی۔ ممتاز شہریوں جیسے کشمیر ٹائمس کی ایڈیٹر انورادھا بھاسن جموال نے کشمیر میں کارروائی کے خلاف ہر وقت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تاکہ راحت حاصل کی جائے لیکن عدالت نے ان کی درخواستیں مسترد کردیں۔ سی پی ایم لیڈر سیتارام یچوری اور دیگر، جسٹس گوگوئی کی عدالت سے رجوع ہوئے تاکہ کشمیر کے سیاسی قائدین کو حراست میں لئے جانے کے مقدمہ میں انصاف حاصل کیا جاسکے لیکن ان تمام کی درخواستوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
اس کے خلاصہ کے لئے جسٹس گوگوئی نے ایک مخصوص طریقہ سے ان تمام دستوری طمانیتوں اور رہنمایانہ اصولوں کو تباہ کردیا جنہیں تمام جمہوریتوں اور بین الاقوامی قانون میں سے رہنما ستارہ کے طور پر احترام کیا جاتا ہے اور اہمیت دی جاتی ہے۔ بنیادی چیزیں جیسے عالمی انسانی حقوق، غیر امتیازی شہریت، قانون پروان حاضری، اظہار خیال کمی آزادی اور قانون ثبوت وغیرہ کو جمہوریت اور عالمی قوانین کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ اس میں کوئی حیرت نہیں کہ حقوق انسانی کے جہدکار اور اپوزیشن جماعتیں ۔ جمہوری اداروں اور بڑی مشکل سے حاصل کی گئی آزادی پر عاملہ کے حملہ کو روکنے میں ناکامی پر واویلا مچاتی رہی ہیں۔ تکلیف کا اظہار کرتی رہی ہیں اور اب یہ واضح ہوگیا ہیکہ کچھ عرصہ سے عدلیہ کے بارے میں جو خدشات ظاہر کئے جارہے تھے وہ حقیقت سے دور نہیں تھے اور اب جسٹس گوگوئی نے اپنا انعام حاصل کرلیا ہے۔ ہم تمام جانتے ہیں کہ آخر عدلیہ کیوں اس طرح کا کردار نبھاتی رہی ہے؟ جسٹس اے پی شاہ سابق صدر لاکمیشن نے یہ کہہ کر تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی کہ یہ سراسر وفاداری کے بدلے انعام کا معاملہ ہے۔ کام کے عوض انعام کا معاملہ ہے۔ جسٹس کورین، جسٹس جوزف سابق سپریم کورٹ جج نے اپنے سابق رفیق کو ذلیل کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا نشست کے تحفہ نے آزادی عدلیہ میں عام آدمی کے اعتماد کو متزلزل کردیا ہے۔جسٹس جوزف سپریم کورٹ کے ان چار ججس میں سے ایک تھے جنہوں نے جسٹس رنجن گوگوئی کے ساتھ ملکر 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس کی من مانی کے خلاف پریس کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔ جس کا مقصد عدالیہ کی آزادی کو بڑھتے خطرات کے خلاف آواز اٹھانی تھی۔ اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس کس کے دباو میں آکر بظاہر مقدمات کی سماعت الاٹ کررہے ہیں اور ان پر دباؤ کس نے بنایا تھا آپ تمام اچھی طرح جانتے ہیں۔
اس میں کوئی حیرت نہیں کہ کبھی اپنی بلند حوصلگی اور منصف المزاج جج کی حیثیت سے شہرت رکھنے والے جسٹس رنجن گوگوئی نے رامناتھ گوئنکا یادگار لکچر دیتے ہوئے عدلیہ کے آزاد اور غیر آلود رہنے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ دی اکنامسٹ کے ایک مضمون ’’کیسے جمہوریت مرتی ہے‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے رنجن گوگوئی نے کہا تھا کہ آزاد ججس اور آواز اٹھانے والے صحافی دفاع جمہوریت کی پہلی صف ہے۔ رنجن گوگوئی نے آنجہانی گوئنکا کی اقتدار پر فائز عناصر سے ٹکرانے اور ان کے خلاف آواز بلند کرنے جیسی عادت سے اتفاق بھی کیا تھا۔ گوئنکا انڈین اکسپریس کے بانی تھے اور انہیں افسانوی صحافی کہا جاتا ہے انہوں نے کہا تھا کہ عدلیہ امید کا آخری گڈھ ہے اور عدالتیں ہی شہریوں کو انصاف فراہم کرتی ہیں۔
عدلیہ، دستور کو تحفظ فراہم کرنے اور اس کی حفاظت کرنے والے سرپرست کی حیثیت رکھتی ہے اور شہریوں کے حقوق کے نگران کا اسے موقف حاصل ہے۔ پچھلے 6 برسوں سے دیکھا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتیں بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور درندوں کی طرح ان کا شکار کیا گیا۔ دن کے اجالے میں بھرے بازاروں میں ہندو ہجوم نے مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس پر سپریم کورٹ یا سرزمین ہند کی کسی عدالت نے ازخود نوٹ لیتے ہوئے آواز نہیں اٹھائی۔ عدالت نے بعض مواصلاتی کمپنیوں کی جانب سے حکومت کو واجب الادا رقومات کی وصولی کو یقینی بنانے پر توجہ دی اور سپریم کورٹ نے دہلی میں ایک سڑک کے بند ہونے پر تشویش کا اظہار کیا لیکن اس کے پاس ایسی آنکھیں نہیں تھیں یا نظریں نہیں تھیں جس سے شاہین باغ کے خواتین اسے دکھائی دیتیں جو امتیاز پر مبنی شہریت قانون کے خلاف احتجاج کررہی ہیں اور تین ماہ سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے۔ اگر یہ ہماری امیدوں کا آخری گڑھ ہے تو ہم یہی دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ ہمیں اور ہمارے ملک کو بچائے۔