جس کو بھی آگ لگانے کا ہنر آتا ہے

,

   

مسلمان… ایک سوال …مودی پر بھاری
ہندوتوا … انتخابی مہم … مسلم قیادتوں کی بے حسی

رشیدالدین
دیش میں کیا چل رہا ہے؟ امریکہ اور مصر کے دورہ سے واپسی پر وزیراعظم نریندر مودی نے طیارہ سے اترتے ہی بی جے پی صدر جے پی نڈا سے یہ سوال کیا تھا ۔ وزیراعظم نے یہ سوال ازراہ مذاق کیا یا پھر واقعی وہ ملک کے حالات کے بارے میں ناواقف تھے۔ وزیراعظم چاہے کوئی ہوں اور دنیا کے کسی حصہ میں کیوں نہ ہوں انہیں لمحہ لمحہ کی خبر دی جاتی ہے، پھر بھی نریندر مودی کا یہ سوال کسی پس منظر کے بغیر نہیں تھا۔ ویسے بھی جے پی نڈا کوئی وزیر اور خاص طور پر وزیر داخلہ نہیں تھے جو اس سوال کا جواب دے سکیں۔ نڈا نے مودی کے سوال پر کیا جواب دیا اس کی تفصیلات تو سامنے نہیں آئی لیکن یہ ضرور ہوا کہ صبح ہوتے ہی امیت شاہ وزیراعظم مودی کی قیامگاہ پہنچ گئے اور ملک کے حالات پر بریفنگ دی ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ مودی نے ایرپورٹ پر امیت شاہ کی غیر موجودگی پر ناراضگی کا اظہار اس سوال کے ذریعہ کیا۔ مودی کے دماغ میں جو کچھ چل رہا تھا ، اسے نڈا سمجھ گئے اور انہوں نے ہوسکتا ہے کہ امیت شاہ تک پیام پہنچا دیا ، وہ صبح ہوتے ہی مودی دربار میں پہنچ گئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نریندر مودی اپنے بیرونی دورہ کا ہندوستان میں ردعمل جاننا چاہتے تھے۔ وزیراعظم کے سوال کا مقصد چاہے کچھ ہو لیکن ایک عام آدمی کا مودی کو یہی جواب ہوگا کہ منی پور جل رہا ہے، ملک میں جارحانہ فرقہ پرست عناصر بے قابو ہیں اور بی جے پی قائدین کے اشتعال انگیز بیانات پر کوئی کنٹرول نہیں۔ جس حال میں مودی نے ملک کو چھوڑا تھا، واپسی پر صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ منی پور میں خانہ جنگی جیسی صورتحال ہے۔ فوج بھی خود کو بے بس محسوس کر رہی ہے۔ فوج کے قبضہ سے انتہا پسندوں کو احتجاجی خواتین نے آزاد کرالیا جس کا اعتراف فوج کے ترجمان نے کیا ۔ عیسائی اور دوسرے قبائلی گروپس ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مودی امریکہ اور مصر کے بجائے منی پور کا دورہ کرتے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ من کی بات اور کسی جلسہ عام میں مودی نے منی پور کے حالات پر ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔ ہر موقع کو ایونٹ بنانا کوئی مودی سے سیکھیں۔ مودی ہمیشہ الیکشن موڈ میں ہوتے ہیں اور دورہ امریکہ کو بھی انتخابی مہم کے طور پر استعمال کیا۔ امریکی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں انگریزی کی غلطیوں کے سبب مودی مذاق کا موضوع بن گئے ۔ 9 سال میں پہلی مرتبہ کسی صحافی کے سوال کا سامنا کیا لیکن ایک سوال نے مودی کو پانی پینے پر مجبور کردیا اور سوال کی گونج امریکہ سے نکل کر ہندوستان کے اقتدار اور بی جے پی کے ایوانوں میں سنائی دی۔ مسلمانوں پر مظالم سے متعلق سوال کرنے والی امریکی صحافی کا مسلمان ہونا غضب ہوگیا اور بی جے پی نے اسے فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے صحافی سبرینا صدیقی کو پاکستانی ، مخالف ہندوستان اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا۔ بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے خاتون صحافی کو اس قدر ہراساں کیا کہ امریکی حکومت کو مداخلت کرنی پڑی۔ امریکی حکومت کو کہنا پڑا کہ صحافی کو ہراساں کرنا ہرگز قابل قبول نہیں۔ مودی کو ایک سوال نے اس قدر پریشان کیا کہ دورہ امریکہ کی خوشی پر پانی پھر گیا تو دوسری طرف سابق صدر بارک اوباما نے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ۔ اوباما کا کہنا تھا کہ صدر جوبائیڈن کو مودی سے ملاقات کے دوران مسلمانوں پر مظالم کا مسئلہ اٹھانا چاہئے۔ الغرض دنیا بھر میں مودی کی شناخت مسلمانوں پر ظلم کرنے والے حکمراں کے طور پر بن گئی ۔ اوباما کے خلاف بھی محاذ کھول دیا گیا اور حسین اوباما کہہ کر مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ راجناتھ سنگھ اور نرملا سیتا رامن نے یہ کہتے ہوئے اوباما کو نشانہ بنایا کہ ان کے دور میں 6 مسلم ممالک پر بمباری کی گئی تھی، لہذا انہیں ہندوستان کو درس دینے کی ضرورت نہیں۔ مودی حکومت کے ان کارندوں کو مسلم ممالک سے اچانک کیوں ہمدردی ہورہی ہے۔ اگر مسلم ممالک پر بمباری غلط تھی تو پھر بمباری کے وقت بی جے پی خاموش کیوں رہی۔ امریکہ کے کئی صدور مملکت کے دور میں مسلم ممالک پر بمباری کی گئی اور ہندوستان کی خارجہ پالیسی امریکہ کے ساتھ تھی۔ اگر مودی حکومت کو مسلم ممالک سے ہمدردی ہو تو وزیر خارجہ کو سرکاری طور پر اپنے موقف کا اظہار کرنا چاہئے ۔ مسلمانوں پر مظالم کے بارے میں سوال اس قدر چبھ گیا کہ اوباما کے مودی پر کئے گئے احسان کو بھی بھلادیا گیا۔ گجرات فسادات کے بعد امریکہ میں مودی کے داخلہ پر لگی پابندی کو اوباما نے ہی ختم کیا تھا۔ اوباما کو مودی حکومت نے 2015 ء میں یوم جمہوریہ پریڈ میں مہمان خصوصی کیوں بنایا تھا؟ کیا اس وقت اوباما مسلمان نہیں تھے؟ کیا وہ ہندوستان کے مخالف نہیں تھے۔ مسلمانوں کے بارے میں سوال کرنا اس قدر گراں گزرا کہ مودی نے اپنے ہاتھوں سے چائے بناکر جو پیش کیا تھا، وہ بھول گئے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے لئے مصر کا دورہ کیا اور بوہرا فرقہ کی مسجد کا معائنہ کیا۔ مودی کو مصر کے اعلیٰ ترین سرکاری اعزاز سے نوازا گیا جس پر مبصرین نے کہا کہ مصر کے ڈکٹیٹر نے ہندوستانی ڈکٹیٹر کا سمان کیا ہے۔ وطن واپسی کے ساتھ ہی مودی نے بھوپال سے بی جے پی کی انتخابی مہم چھیڑ دی۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اسمبلی الیکشن کا ایجنڈہ طئے کردیا گیا۔ یکساں سیول کوڈ اور طلاق ثلاثہ پر پابندی کی پرزور وکالت کرتے ہوئے مودی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور بیروزگاری پر گھڑیالی آنسو بہانے لگے۔ مسلمانوں اور بالخصوص مسلم خواتین سے مودی کی اچانک ہمدردی محض اتفاق نہیں بلکہ ہندوتوا ایجنڈہ کا حصہ ہے۔ تین ریاستوں میں جاریہ سال کے اختتام میں اسمبلی انتخابات مقرر ہیں جبکہ آئندہ سال لوک سبھا انتخابات ہوں گے۔ مودی نے بھوپال سے گودی میڈیا کیلئے بھی لوک سبھا انتخابات تک کا ایجنڈہ طئے کردیا ہے ۔ مودی جس وقت بھوپال میں مسلمانوں سے ہمدردی کا ڈھونگ کر رہے تھے، اسی وقت مہاراشٹرا کے ناسک میں بیف لے جانے کے الزام میں عبدالمجید انصاری نامی نوجوان کو مار مار کر ہلاک کردیا گیا۔
نریندر مودی اور ان کی حکومت کا ماب لنچنگ ٹولے پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ایک طرف مسلمانوں سے ہمدردی تو دوسری طرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ عیدالاضحی کے موقع پر کئی بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کو قربانی سے روکا گیا۔ ملک میں یکساں سیول کوڈ نفاذ کی تیاری کرنے والے نریندر مودی قوم کو جواب دیں کہ آخر قانون کے نفاذ میں دوہرا معیار کب تک جاری رہے گا۔ سنگھ پریوار اور جارحانہ فرقہ پرست عناصر کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔ دراصل کرناٹک کی بدترین شکست نے مودی کو مسلمانوں سے ہمدردی پر مجبور کردیا ہے۔ مودی کو مسلمانوں کے ووٹ کی اہمیت کا اندازہ ہوچکا ہے ، لہذا انہوں نے بی جے پی کیڈر کو مشورہ دیا کہ مسلمانوں سے گھر گھر پہنچ کر ملاقات کریں اور مودی حکومت کے کارناموں سے واقف کرائیں۔ یقیناً بی جے پی کارکنوں کو مسلمانوں سے ملاقات کرنی چاہئے لیکن یہ ملاقات گجرات فسادات سے لے کر ناسک میں عبدالمجید انصاری کی ہلاکت تک کے واقعات پر معذرت خواہی کے لئے ہونی چاہئے۔ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے ذریعہ بی جے پی تین ریاستوں اور پھر لوک سبھا چناؤ کا سامنا کرنا چاہتی ہے۔ گزشتہ 30 برسوں سے بی جے پی کے ایجنڈہ میں موجود 3 میں سے 2 ایجنڈہ امور کی تکمیل ہوگئی ۔ رام مندر کی تعمیر اور کشمیر سے دفعہ 370 کی برخواستگی کا عمل مکمل ہوچکا ہے ۔ تیسرا وعدہ یکساں سیول کوڈ کا ہے جو شائد لوک سبھا انتخابات سے قبل مکمل ہوگا۔ اس مسئلہ پر لاء کمیشن سے رپورٹ طلب کرنا محض ضابطہ کی تکمیل دکھائی دے رہی ہے۔ 2018 ء میں لاء کمیشن نے عوامی رائے حاصل کرتے ہوئے حکومت کو رپورٹ پیش کی تھی کہ ہندوستان میں یکساں سیول کوڈ کی نہ ہی ضرورت ہے اور نہ ہی عوام کی جانب سے مطالبہ کیا جارہا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مودی حکومت نے لاء کمیشن کی رپورٹ پہلے ہی تیار کرلی ہے اور عوامی رائے حاصل کرنے کا عمل محض ایک دھوکہ ہے۔ پانچ سال میں لاء کمیشن کو یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ پر دوبارہ متحرک کرنا مودی حکومت کے خفیہ ایجنڈہ کو ثابت کرتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی کو یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے سے کون روکے گا۔ مسلمانوں کے علاوہ دیگر طبقات کی جانب سے مخالفت ضرور کی جارہی ہے لیکن اس کا مودی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا مطلب شریعت سے انحراف ہے۔ مسلمانوں کو ہندوستان میں شریعت کو ترک کرتے ہوئے حکومت کے قوانین کے مطابق چلنا ہوگا۔ اس قدر بھیانک صورتحال کا سامنا کرنے کے باوجود مسلمانوںکی سیاسی اور مذہبی قیادتیں بے حسی کا شکار ہیں۔ موجودہ وقت میں سیاسی اور مذہبی ایک بھی قیادت ایسی نہیں جس پر قوم کو اعتماد ہو۔ شریعت کے خلاف فیصلہ کا مقابلہ کرنے اور مزاحمت کرنے کی ہمت کسی میں دکھائی نہیں دیتی۔ حالانکہ دستور خود پرامن احتجاج کی اجازت دیتا ہے۔ اگر مسلمان قیادتیں صرف بیان بازی پر محدود رہیں اور قوم کو احتجاج سے روکتے ہوئے پست ہمت کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر وہ دن دور نہیں جب دینی مدارس میں اسلامی شریعت کے بجائے مودی حکومت کا تیار کردہ قانون پڑھایا جائے گا۔ مورخین کو اندیشہ ہے کہ مسلم قیادتوں کی بے حسی کہیں اسپین کی صورتحال پیدا نہ کردے۔ منظر بھوپالی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
جس کو بھی آگ لگانے کا ہنر آتا ہے
وہی ایوان سیاست میں نظر آتا ہے