جشن عید| بقلم : مولانا ابوالکلام ازاد (مولانا آزاد كى عيد کے موقع پر خون جگر میں ڈوبى ایک تحرير كا اقتباس)

,

   

“مگر یہ عيد الفطر ! جشن ملى! یہ ورود ذكر و رحمت الهى كى یادگار! یہ سر بلندى وافتخار كى بخشش كا ياد آور ! یہ يوم كامرانى وفيروزى و شادمانى! اس وقت تک کے لئے عيش وسرور تها جب تک ہمارے سر تاج خلافت سے سربلند ہونے کے لئے اور جسم خلعت قيادت سے مفتخر ہونے کے لئے عزت وعظمت جب ہمارے ساتھ تهى، اقبال وكامرانى ہمارے آگے دوڑتی تهى، خدا كى نعمتوں كا ہم پر سایہ تها، اور الله كى بخشى هوئى تخت خلافت کے جلال پر متمكن تھے، ليكن اب ہمارے اقبال وكامرانى كا تذكره صرف صفحات تاريخ كا افسانہ ماضى ره گيا ہے،دنيا كى اور قومیں همارے لئے وسیلہ عبرت تھیں،ليكن اب خود ہمارے اقبال وادبار كى حكايت اوروں کے لئے مثال عبرت ہے، ہم نے خدا كى دى هوئى عزت وكامرانى كو هوائے نفس كى بتلائى هوئى راه مذلت سے بدل ليا، اس کے عطا کئے ہوئے منصب خلافت كى قدر نہ پہچانى، اور زمين كى وراثت ونيابت كا خلعت ہم كو راس نہ آیا، اب ہمارے عيد كى خوشیوں کے دن گئے، عيش وعشرت كا دور ختم ہوگیا، ہم نے بہت سى عيديں تخت حكومت وسلطنت پر دیکھیں، ہزاروں شاديانے سرير خلافت کے آگے بجوائے، ہم پر صد ہا عیديں ايسى گذريں جب دنيا كى قومیں ہمارے سامنے سر بسجود تھیں، اور عظمت وشوكت کے تخت الٹے ہوئے ہمارے سامنے تھے،اب عید کے عيش وطرب كى صحبتيں ان قوموں كو مبارک ہوں جن كى عبرت و تنبیہ کے لئے اب تک ہمارا وجود بار زمین ہے، ان كو خوش نصيب سمجهئے جو اپنے دور اقبال کے ساتھ خود بهى مٹ گئے، ہمارا اقبال جا چکا ہے، مگر ہم خود اب تک دنيا میں باقى ہیں، شايد اس لئے کہ غيروں کے طعنے سنیں، اور اپنی ذلت وخوارى پر آنسو بہا کر قوموں کے لئے وجود عبرت ہوں” الہلال