جشن میلاد النبی ﷺ… ایک مختصر جائزہ

   

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری
حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’حسن المقصد فی عمل المولد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ وسے میلاد شریف کے عمل کے حوالے سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا اس طرح دیا کہ ’’مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا، جو صحیحین سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ نے ان سے پوچھا ’’ایسا کیوں کرتے ہو؟۔ اس پر وہ عرض کناں ہوئے اس دن اللہ تعالی نے فرعون کو غرق کیا اور موسی علیہ السلام کو نجات دی۔ ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں شکر بجالانے کے لئے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں‘‘۔ اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ کسی معین دن میں اللہ تعالی کی طرف سے کسی احسان و انعام کا عطا ہونا یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر اللہ تعالی کا شکر بجالانا چاہئے اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا بھی مناسب تر ہے۔ اللہ تعالی کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ، تلاوت قرآن اور دیگر عبادات کے ذریعہ بجالایا جاسکتا ہے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے بڑھ کر اللہ کی نعمتوں میں سے کونسی نعمت ہے؟ اس لئے اس دن ضرور سجدہ بجالانا چاہئے۔
بعثت کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ خود کیا۔ میں کہتا ہوں میرے لئے اس حدیث کی ایک اور اصل بھی ظاہر ہوئی ہے، جسے امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ بعثت کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے ایک عقیقہ خود کیا۔ اس کے ساتھ یہ روایت بھی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد حضرت عبد المطلب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے ساتویں دن عقیقہ کیا۔ حالانکہ عقیقہ دوبارہ نہیں کیا جاتا۔ لہذا اس قول میں تطبیق یوں ہوگی کہ وہ فعل (عقیقہ) جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا ہے، یہ اللہ کی طرف سے آپ کی پیدائش اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہانوں کے لئے رحمت للعالمین بناکر مبعوث کرنے پر اظہار تشکر ہے اور آپ کی امت کے لئے باعث شرف ہے۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی ذات پر درود و سلام بھیجا کرتے تھے۔ لہذا ہمارے لئے یہ بھی مستحب ہے کہ ہم اظہار تشکر کے طورپر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر مسلمانوں کا اجتماع عام منعقد کیا کریں۔ کھانا کھلائیں اور اس طرح کی دیگر تقاریب کا انعقاد کریں، آپ کی ولادت پر خوشیوں کا اظہار کیا کریں۔ (حسن المقصد فی عمل المولد)
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ’’پھر میں نے امام القراء حافظ شمس الدین الجزری کی کتاب ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں یہ عبارت دیکھی کہ ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا۔ اس سے پوچھا گیا اب تیرا کیا حال ہے؟۔ کہنے لگا آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن میرے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے۔ انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ (ہر پیر کو) میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے، جسے میں پی لیتا ہوں اور یہ تخفیف عذاب میرے لئے اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا، جب اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ کو دودھ بھی پلایا تھا۔ جب ابولہب جیسے کافر کا یہ حال ہے، جس کے بارے میں قرآن مجید میں مذمت نازل ہوئی، باوجود اس کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں پیر کی رات اس کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے، تو پھر اس موحد (توحید پرست) امتی کا کیا حال ہوگا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد پر خوشی و مسرت کا اظہار کرے اور حسب استعداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے خرچ کرے۔ مجھے اپنی عمر کی قسم! بے شک اس کی جزا رب کریم ضرور دے گا اور اپنے فضل و کرم سے اسے جنت کی نعمتوں میں داخل کریگا‘‘۔اسی طرح امام شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’مورد الصادی فی مولد الہادی) میں لکھتے ہیں کہ یہ بات ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ہر دوشنبہ (پیر) کو ابولہب کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے۔ پھر آپ نے عربی کے تین شعر لکھے، جس کا ترجمہ اس طرح ہے: (۱) جب ابولہب جیسا کافر جس کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہے اور اس جس کی مذمت میں قرآن مجید کی سورۃ تبت یدا نازل ہوئی (۲) باوجود اس کے جب دوشنبہ (پیر) کا دن آتا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی کی وجہ سے ہمیشہ سے اس کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے (۳) پس کیا خیال ہے اس بندہ کے بارے میں، جس نے تمام عمر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں جشن منانے میں گزاری اور توحید کی حالت میں اسے موت آئی۔
امام کمال الدین الادفوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’الطالع السعید‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے ایک مہربان دوست ناصر الدین محمود بن العماد حکایت (بیان) کرتے ہیں کہ بے شک ابو طیب محمد بن ابراہیم السبتی المالکی فوص کے رہنے والے تھے، صاحب عمل علماء میں سے تھے۔ اپنے دارالعلوم میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن محفل منعقد کرتے اور مدرسہ میں چھٹی کرتے۔ استاد سے کہتے ’’اے فقیہ! آج خوشی و مسرت کا دن ہے، بچوں کو چھوڑ دو‘‘۔ پس ہمیں چھوڑ دیا جاتا۔ ان کا یہ عمل ان کے نزدیک میلاد کے اثبات اور اس کے جائز ہونے پر دلیل و تائید ہے۔ یہ شخص (محمد بن ابراہیم) مالکیوں کے بہت بڑے فقیہ اور ماہر فن ہوگزرے ہیں، بڑے زہد و ورع کے مالک تھے۔ علامہ ابوحیان اور دیگر علماء نے ان سے ہی اکتساب فیض کیا۔ آپ نے ۶۹۵ ھ میں وفات پائی۔
اہل اسلام ان ابتدائی تین ادوار (جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیر القرون فرمایا ہے) کے بعد سے ہمیشہ ماہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں محافل میلاد منعقد کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ عمل (اگرچہ) بدعت ہے، مگر بدعت حسنہ ہے۔ (جیسا کہ) امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے اور ’’مدخل‘‘ میں ابن الحاج کے کلام سے بھی یہی مراد ہے۔ اگرچہ انھوں نے ان محافل میں درآنے والی ممنوعات (محرمات) کی مذمت کی ہے، لیکن اس سے پہلے تصریح فرمادی ہے کہ اس ماہ مبارک کو اعمال صالحہ اور صدقہ و خیرات کی کثرت اور دیگر اچھے کاموں کے لئے خاص کردینا چاہئے۔ میلاد منانے کا یہی طریقہ پسندیدہ ہے۔ حافظ ابوخطاب بن دحیہ کا بھی یہی موقف ہے، جنھوں نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب ’’التنویر فی المولد البشیر والنذیر‘‘ تالیف فرمائی، جس پر بادشاہ مظفر شاہ ’’اربل‘‘ نے انھیں ایک ہزار دینار (بطور انعام) پیش کیا اور یہی رائے ’’ابوطیب سبتی‘‘ کی ہے۔ یہ قوص کے رہنے والے تھے، یہ تمام علماء جلیل القدر مالکی ائمہ میں سے ہیں۔ یا پھر یہ (عمل مذکور) بدعت مذمومہ جیسا کہ ’’التاج الفاکہانی‘‘ کی رائے ہے۔ امام سیوطنی نے ان کی طرف منسوب عبارات کا حرف بہ حرف رد فرمایا ہے۔ (بہرحال) پہلا قول ہی زیادہ راجح اور واضح تر ہے۔ بایں وجہ یہ اپنے دامن میں خیر کثیر رکھتا ہے۔ لوگ (آج بھی) ماہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اجتماعات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور اس کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ نیکیاں کثرت سے کرتے ہیں اور مولود شریف کے واقعات پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس کی خصوصی برکات اور بے پناہ فضل و کرم ان پر ظاہر ہوتا ہے۔ (حسن المقصد فی عمل المولد،شرح المواہب۔ از: امام زرقانی)

(محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم) قرون ثلاثہ فاضلہ کے بعد صرف نیک مقاصد کے لئے شروع ہوئی اور جہاں تک اس کے انعقاد میں نیت کا تعلق ہے تو وہ اخلاص پر مبنی تھی، پھر ہمیشہ سے جملہ اہل اسلام تمام ممالک اور بڑے بڑے شہروں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے مہینہ میں محافل میلاد منعقد کرتے چلے آرہے ہیں اور اس کے معیار اور عز و شرف کو عمدہ ضیافتوں اور خوبصورت طعام گاہوں (دسترخوانوں) کے ذریعہ برقرار رکھا اور اب بھی ماہ میلاد کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرتے ہیں۔ بلکہ جونہی ماہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم قریب آتا ہے، خصوصی اہتمام شروع کردیتے ہیں اور نتیجتاً اس ماہ مقدس کی برکات اللہ تعالی کے بہت بڑے فضل عظیم کی صورت میں ان پر ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ بات تجرباتی عمل سے ثابت ہے، جیسا کہ امام شمس الدین بن الجزری المقری نے بیان کیا ہے کہ ماہ میلاد کے اس سال مکمل طورپر حفظ و امان اور سلامتی رہتی ہے اور تمنائیں پوری ہونے کی بشارت بہت جلد ملتی ہے۔ (المولد الروی فی مولد النبی۔ از: ملا علی قاری)
اسی طرح محافل میلاد کے اہتمام میں اہل مصر اور اہل شام سب سے آگے ہیں اور سلطان مصر ولادت باسعادت کی رات ہر سال محفل میلاد منعقد کرنے میں بلند مقام رکھتا ہے۔ فرمایا کہ میں ۷۸۵ ھ میں سلطان ظاہر برقوق کے پاس میلاد کی رات الجبل العلیہ کے قلعہ میں حاضر ہوا۔ وہاں وہ کچھ دیکھا، جس نے مجھے ہلاکر رکھ دیا اور بہت زیادہ خوش کیا اور کوئی چیز مجھے بری نہ لگی۔ میں ساتھ ساتھ لکھتا گیا، جو بادشاہ نے اس رات قراء اور موجود واعظین، نعت خواں (شعراء) اور ان کے علاوہ کئی اور لوگوں، بچوں اور مصروف خدام پر تقریباً دس ہزار مثقال سونا، خلعتیں، انواع و اقسام کے کھانے، مشروبات، خوشبوئیں، شمعیں اور دیگر چیزیں دیں، جن کے باعث وہ اپنی معاشی حالت درست کرسکتے تھے۔ اس وقت میں نے ایسے پچیس خوش الحان قراء شمار کئے، جو اپنی مسحور کن آواز سے سب پر فائق رہے اور ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا، جو سلطان اور اعیان سلطنت سے بیس کے قریب خلعتیں لئے بغیر اسٹیج سے اترا ہو۔ امام سخاوی کہتے ہیں کہ میرا موقف یہ ہے کہ مصر کے سلاطین جو حرمین شریفین کے خدام رہے ہیں، ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالی نے اکثر برائیاں اور عیوب ختم کرنے کی توفیق عطا کر رکھی تھی اور انھوں نے رعیت کے بارے میں ایسا ہی سلوک کیا، جیسا والد اپنے بیٹے سے کرتا ہے اور انھوں نے قیام عدل کے ذریعہ شہرت حاصل کی۔ اللہ تعالی اس معاملہ میں انھیں اپنی غیبی مدد سے نوازے۔ (المورد الروی فی مولد النبی۔ ۱۳)