جموں وکشمیر: سرحد پر روز کی گولہ باری سے لوگ پریشان

   

جموں، 5 جون(سیاست ڈاٹ کام) عالمی وبا کورونا وائرس کے قہر کے روز افزوں تیز سے تیز تر ہورہے تیور کے بیچ ہندوستان اور پاکستان کی افواج کے درمیان سرحدوں پر تواتر کے ساتھ جاری نوک جھونک سے سرحدی بستیوں کے لوگوں کی زندگیاں جہنم بن کے رہ گئی ہے ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ ‘بستیوں پر گولہ باری سے ہم پر ہر وقت جانی ومالی نقصان ہونے کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری رات کی نیندیں حرام اور دن کا سکون اکارت ہوکے رہ گیا ہے ‘۔ضلع کٹھوعہ کے ہیرا نگر علاقے کے ایک سرحدی گاؤں کے گوپال داس نے میڈیا کو بتایا کہ گذشتہ شب پاکستانی فوج کی طرف سے بستی پر کی گئی گولہ باری سے کئی مکانوں کو نقصان پہنچا۔انہوں نے کہا کہ ہم کسان لوگ ہیں ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ پکے مکان تعمیر کر سکیں۔موصوف نے کہا کہ گولہ باری کئی برسوں سے ہورہی ہے اور کئی دنوں سے بستیوں پر گولہ باری ہورہی ہے جس کا جواب ہماری فوج دی رہی ہے لیکن معقول جواب نہیں دیا جارہا ہے ۔انہوں نے حکام سے اپیل کی کہ وہ سرحدی بستیوں میں رہنے والے کسانوں کو زندہ رکھنے کے لئے ٹھوس اقدام کریں۔وندرا دیوی نامی ایک خاتون نے کہا کہ رات بھر اس قدر گولہ باری ہوئی کی ہم سو نہیں سکے ۔انہوں نے کہا کہ ہم تو خود مورچوں میں جا کر اپنی جان بچا سکے لیکن ہمارا سامان اور مویشی باہر ہی رہتے ہیں جس کو نافی نقصان ہوجاتا ہے ۔موصوفہ نے کہا کہ آئے روز کی گولہ باری کی وجہ سے یہاں جینا مشکل بن رہا ہے اور ہمارے مشکلات اور دقتوں میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے جو لوگ یہاں آتے ہیں وہ دیکھتے ہیں۔
لکھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور پھر کوئی ہماری مدد نہیں کرتا ہے ۔موصوفہ نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ ان کے تحفظ کا بھر پور انتطام کریں۔ قابل ذکر ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سال 2003 میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پایا تھا تاکہ آر پار کی سرحدی بستیوں کے لوگوں کو راحت نصیب ہو سکے لیکن یہ معاہدہ بھی طرفین کے درمیان طے پائے گئے کئی معاہدوں کی طرح کاغذوں تک ہی محدود رہ گیا جس کے نتیجے میں آئے روز کی گولہ باری کا نشانہ بننا سرحدی بستیوں کے لوگوں کا مقدر بن گیا۔