جوبیڈن جیتے یا ٹرمپ… ہند۔ امریکہ دفاعی تعلقات کی کشیدگی کا امکان

   

اپرنا پانڈے
چین یا کورونا وائرس وباء کے برعکس صدر امریکہ کی انتخابی مہم میں ہندوستان کا تذکرہ بہت کم ہوتا ہے۔ سابق صدر بارک اوباما نے ہند۔ امریکی دفاعی تعلقات کو 21 ویں صدی عیسوی میں شاندار شراکت داری قرار دیا تھا۔
اگر ڈونالڈ ٹرمپ دوبارہ صدر امریکہ منتخب ہوجائیں تو وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ان کے شخصی تعلقات کی اہمیت برقرار رہے گی وہ دفاعی تعلقات میں تجارتی اور بازار تک رسائی کے بارے میں اختلافات کو رکاوٹ بننے نہیں دیں گے۔ تاہم بحیثیت صدر جوبیڈن ہندوستان کو چین کا جواب بنانے کی سودے بازی کو ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکلوں کی فروخت کی تعداد کو یا ان کی قیمت فروخت کی شرح کو رکاوٹ بننے کی اجازت نہیں دیں گے، حالانکہ امریکی سیاست میں صف بندی کی جڑیں بہت گہرائی تک پیوست ہیں لیکن ہندوستان کو دونوں حریف امریکی سیاسی پارٹیوں کی ہمیشہ تائید حاصل رہی ہے۔
ہند ۔ امریکہ تعلقات ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں پھلے پھولے لیکن ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر امریکہ بل کلنٹن اور بارک اوباما کے ادوار میں بھی جوں کے توں برقرار رہے۔ جغرافیائی سیاسی اہمیت کا امریکہ کو بخوبی احساس ہے اور امریکہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ طاقتور ہندوستان امریکہ کی ضرورت ہے۔
موجودہ ہند ۔ امریکہ تعلقات
صدر ٹرمپ اور سابق نائب صدر امریکہ جوبیڈن کے درمیان اب تک کے صدارتی انتخابی مباحثہ میں حالانکہ ہندوستان کا صرف سرسری تذکرہ کیا گیا لیکن دونوں صدارتی امیدواروں نے ماضی میں طاقتور ہند۔ امریکہ تعلقات کی تائیدکی۔ درنوں قائدین اس شعبے کے ماہرین کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔
صدر ٹرمپ بین الاقوامی تعلقات کے سلسلہ میں ماہرین کے مشورے کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ وہ غیر ملکی قائدین کو اپنی جائیدادوں میں سے کسی ایک کا امکانی خریدار سمجھتے ہیں اور اسی مناسبت سے رویہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ ان کی تعریف کرتے اور ان کو اچھا محسوس کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم ہند نریندر مودی کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا حالانکہ وہ ان سے کچھ زیادہ فائدہ نہ اٹھاسکے۔
بوسٹن کی تقریب ’’ہاؤڈی مودی‘‘ اور احمد آباد کی تقریب ’’نمستے ٹرمپ‘‘ میں یہی رویہ برقرار رہا لیکن جامع ہند۔ امریکہ تجارتی معاہدہ اور لڑاکا امریکی جیٹ طیاروں کی خریداری کے سلسلہ میں ہند۔ امریکہ معاہدہ طئے نہ پاسکا جو ہندوستانی فضائیہ کے لئے تھے۔

ری پبلیکسن کی خواہش
ممکن ہے کہ ہندوستان کے قائدین بیرونی ممالک سے تعلقات کے سلسلہ میں مفید سودے بازی کو اپنا ایک مقصد سمجھتے ہوں لیکن اس کی جہت ہمیشہ دفاعی سودے رہے ہیں۔ ہندوستان سودے بازی کا رویہ نہ رکھنے والے ڈیموکریٹک پارٹی قائدین اور ٹرمپ سے پہلے ریبلیکن پارٹی کے قائدین کا رویہ ان کے لئے یکساں پرکشش رہا ہے، حالانکہ ریبلیکن پارٹی کے قائدین، ہندوستان کی تیز رفتار معاشی ترقی کو پسند نہیں کرتے۔ وہ امریکہ کی شاندار دفاعی پالیسی کے ایک جزو کے طور پر خواہش رکھتے ہیں کہ ہندوستان چین جیسے ممالک سے تصادم کا خطرہ بھی مول لے۔
چند انتہائی واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ وائٹ آئزن ہاور انتظامیہ (1953ء تا 1961ء) اور جارج ڈبلیو بش انتظامیہ (2000 ء تا 2008ء) ہندوستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ معاہدات کے سلسلہ میں ہندوستان کی بے اعتنائی اور سابق سوویت یونین کے ساتھ معاہدات کو ترجیح اور امریکہ کی کمپنیوں کو تجارت کی اجازت نہ دینے کے باوجود ہندوستان کے عروج کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ ہندوستان کی دوستی کو امریکہ کے لئے مفید سمجھتے تھے۔
ٹرمپ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی پیمائش دفاعی اعتبار سے کرتے ہیں ان کے عالمگیر نقطہ نظر میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

ڈیموکریٹ پارٹی کے قائدین کا نقطہ نظر
بیڈن اور ڈیموکریٹک پارٹی قائدین کے لئے ہندوستان سے اتحاد اپنے قدیم موقف سے انحراف کے مترادف ہوگا۔ لبرل امریکی قائدین انیسویں صدی عیسوی سے ہی ہندوستان کو عالمی سطح پر اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرنے کی تائید میں ہیں ان کا یہ نقطہ نظر مصنف نے 1930 ء میں اپنی کتاب میں جو کئی جلدوں میں ہے ’’تمدن کی کہانی‘‘ میں پیش کیا ہے۔
ڈیموکریٹک صدر فریفکن ڈیلانو روزویلٹ (1933ء تا 1945ء) اپنے اس نظریہ کا وزیراعظم برطانیہ ونسٹن چرچل کو قائل نہ کرواسکے۔ اس کے باوجود ڈیموکریٹک پارٹی کا موقف لبرل امریکیوں کے لئے پرکشش ہے۔ جان ایف کینیڈی نے صدر امریکہ بننے سے پہلے ہی کہا تھا ’’آزاد اور فروغ پذیر ایشیاء کا آزاد اور فروغ پذیر قائد ہندوستان ہے‘‘۔
مشرق کی فروغ پذیر قیادت کو چین کے ساتھ معاشی اور سیاسی جنگ میں جیتنے کے لحاظ سے نہیں بلکہ جمہوریت، رواداری اور تنوع میں یقین کے لحاظ سے کی جانی چاہئے‘‘۔

سخت تر مسودہ
ہند۔ امریکہ شراکت داری اب کثیر جہتی ہوگئی ہے اور ٹکنالوجی، حفظان صحت، خلا اور سائبر شعبوں وغیرہ میں موجود ہے۔
بعض ہندوستانی مبصرین کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹک صدر امریکہ کے دور میں مذہبی آزادی اور جمہوریت میں ایقان کے نظریات کو فروغ حاصل ہوگا ٹرمپ کی ناکامی پر یہ موقف برقرار نہیں رہے گا۔
امریکہ کی دونوں حریف سیاسی پارٹیاں معاشی آزادی اور جمہوریت کی علمبردار ہیں۔ ہندوستان سے گہری دلچسپی ان کی مشترک خصوصیت ہے ممکن ہے کہ بیڈن تجارت کے قوانین میں نرمی اور انہیں آسان بنانے کے خواہاں ہوں لیکن ہندوستان کو ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ ہند۔ امریکہ دفاعی شراکت داری میں رکاوٹیں اور اختلافات بہرحال برقرار رہیں گے۔