جو لوٹتے ہو تو لوٹو مگر خیال رہے

,

   

سوریہ نمسکار … ہندوتوا ایجنڈہ میں تیزی
ابوظہبی میں مندر … ہندوستان میں مساجد نشانہ

رشیدالدین
عوام کی بھلائی کے کاموں میں ریاستوں کے درمیان مسابقت ہو تو ملک کے حق میں بہتر ہوگا لیکن بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کی دوڑ جاری ہے ۔ خیر اور بھلائی کے کاموں میں ریاستوں کو دوسرے سے بہتر مظاہرہ کی فکر کرنی چاہئے۔ ملک میں ایسا دور بھی گزرا جب فلاحی اور ترقیاتی کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کی جاتی تھی ۔ کوئی ریاست اگر ایک مثالی اسکیم شروع کرتی تو دوسری ریاستیں اسکیم کو اختیار کرتیں تاکہ اپنے عوام کا بھلا ہو۔ گزشتہ 10 برسوں میں سب کچھ تبدیل ہوگیا اور تعمیری کاموں کے بجائے تخریبی سرگرمیوں میں دوسرے کو نیچا دکھانے میں توانائیاں صرف ہورہی ہیں۔ اسے ملک کی بدقسمتی کہیں یا پھر عوام کی بے حسی کہ ملک میں منفی سوچ رکھنے والے عناصر کا غلبہ ہونے لگا ہے ۔ تعمیر اور ترقی سے ملک مضبوط ہوگا جبکہ تخریبی سرگرمیاں ملک و قوم سے دشمنی کے مترادف ہیں لیکن افسوس کہ سماج کو نفرت کے ایجنڈہ پر تقسیم کرتے ہوئے ملک کو کمزور کرنے والے حقیقی معنوں میں دیش بھکت کہلائے جارہے ہیں۔ مودی کی قیادت میں ہندو راشٹر کی تشکیل کے منصوبہ میں تعاون کیلئے بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مسابقت جاری ہے ۔ اترپردیش تو سنگھ پریوار کی سب سے پہلی فیکٹری ہے جس کے بعد آسام ، اتراکھنڈ ، ہریانہ ، مدھیہ پردیش، راجستھان اور گجرات نے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا کوئی بھی موقع نہیں گنوایا۔ کسی نے مدارس پر پابندی لگادی تو دوسرے نے اذان کی آواز بند کردی، تیسرے نے حلال اور حجاب پر روک لگادی۔ الغرض ملک میں جارحانہ فرقہ پرستی کا ایجنڈہ حکومتوں کی اولین ترجیح بن چکا ہے ۔ جیسے جیسے لوک سبھا انتخابات قریب آرہے ہیں، ریاستوں کے درمیان غیر صحتمندانہ مسابقت نے سیکولرازم اور دستور کی بالادستی پر سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ آسام میں شریعت اور مدارس پر حملوں سے عوام ابھی سنبھل نہیں پائے تھے کہ اتراکھنڈ نے یکساں سیول کوڈ نافذ کردیا ۔ پے در پے حملے کے باوجود مسلمانوں میں بے حسی کا غلبہ ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی قوم کا زوال دولت اور اقتدار سے محروم ہونا نہیں بلکہ جس دن احساس ختم ہوجائے وہی زوال کا آغاز ہے۔ مسلمانوں نے ہر ظلم کو سہنے کی عادل ڈال لی ہے اور اب تو دین اور شریعت کے معاملہ میں بھی دھڑکنے والے دل نہیں رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سنگھ پریوار کسی خوف کے بغیر نفرتی ایجنڈہ پر عمل پیرا ہے۔ راجستھان میں اقتدار میں واپسی کے ساتھ ہی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ حلال گوشت کی دکانات کو بند کیا گیا اور حجاب کی مخالفت کی گئی۔ تازہ ترین معاملہ میں تمام اسکولوں میں سوریہ نمسکار کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ راجستھان حکومت کے فیصلہ نے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی یاد تازہ کردی ہے ۔ اترپردیش میں جب سوریہ نمسکار کو لازمی کیا گیا تو علی میاں نے حکومت کو دھمکی دی تھی کہ مسلمان اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکال لیں گے۔ علی میاں کی دھمکی کا یہ اثر ہوا کہ حکومت کو سوریہ نمسکار کے احکامات واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہندو راشٹر کے ایجنڈہ پر عمل آوری میں بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے رول کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ملک دستور اور قانون سے چلے گا یا پھر ہندوتوا طاقتوں کے اشارہ پر۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کا بنیادی ایجنڈہ نریندر مودی کو تیسری مرتبہ اقتدار ہے۔ عبادتگاہوں سے متعلق 1992 کے قانون سے مسلمان مطمئن تھے لیکن اب عبادتگاہوں کو چھیننے کی تیاری ہے۔ گیان واپی مسجد میں پوجا شروع کردی گئی ۔ متھرا کی عیدگاہ کے بارے میں کسی دن عدالت کا فیصلہ آرکیالوجیکل سروے رپورٹ کی بنیاد پر آسکتا ہے۔ مسلمان خواب غفلت سے آخر بیدار کب ہوں گے؟ بابری مسجد ہاتھ سے نکل گئی اور اب کاشی اور متھرا کا نمبر ہے۔ رام مندر کے لئے رتھ یاترا کے ذریعہ ملک بھر میں فسادات کو ہوا دینے والے ایل کے اڈوانی کو باوقار سویلین اعزاز بھارت رتن سے نوازا گیا ۔ جس شخص کو جیل میں ہونا چاہئے تھا ، وہ اعلیٰ ترین اعزاز کا حامل بن چکا ہے۔ اسے اتفاق ہی کہا جائے گا کہ پاکستان چھوڑ کر ہندوستان میں بسنے والے کو ہم نے بھارت رتن سے نوازا اور جس نے ہندوستان سے اٹوٹ وابستگی ظاہر کی تھی، اس شخصیت کو پاکستان نے سویلین اعزاز عطا کیا۔ اڈوانی جب پاکستان گئے تو انہوں نے محمد علی جناح کی مزار پر حاضری دی اور انہیں سیکولر لیڈر قرار دیا تھا۔ وہی بات اگر کوئی مسلمان جناح کی تعریف کرتا تو اس کا کیا حال کردیا جاتا، اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔
پارلیمنٹ سیشن کے اختتام کے ساتھ ہی لوک سبھا چناؤ کی تیاریوں میں سیاسی پارٹیاں مصروف ہوچکی ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے خطاب دراصل انتخابی مہم کا آغاز ہے۔ ’’اب کی بار 400 پار‘‘ کے نعرہ کے ساتھ نریندر مودی نے اپوزیشن کی صفوں میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں بھلے ہی مودی حکومت کی پالیسیوں سے عوام ناراض ہیں لیکن اقتدار کے راستہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اپوزیشن بظاہر اتحاد کا دعویٰ کر رہا ہے لیکن مودی کے 400 پار نعرہ کے ساتھ ہی انڈیا الائنس کے کئی حلیف اپنا علحدہ راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ بہار میں نتیش کمار نے دوبارہ بی جے پی کو گلے لگالیا اور اب ترنمول کانگریس نے تنہا مقابلہ کا اشارہ دیا ہے۔ کئی ریاستوں میں کانگریس کے اہم قائدین بی جے پی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ مہاراشٹرا کے سابق چیف منسٹر اشوک راؤ چوان جن کے سیکولر نظریات پر شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، انہوں نے بی جے پی میں شمولیت کے ذریعہ ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے پہلے مرحلہ کے بعد امید کی جارہی تھی کہ کانگریس ملک میں اپنی واپسی کرے گی لیکن چھتیس گڑھ ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کی شکست نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کانگریس پارٹی میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ راہول گاندھی نے دوسرے مرحلہ کی بھارت جوڑو نیائے یاترا کا آغاز کیا ہے ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ راہول گاندھی کو یاترا سے زیادہ اپنے گھر کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ کانگریس مضبوط ہوگی تو ملک میں بی جے پی کا مقابلہ ہوپائے گا۔ موجودہ حالات میں مودی کا کوئی متبادل دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ انڈیا الائنس میں نشستوں پر مفاہمت کسی چیلنج سے کم نہیں۔ مودی اور بی جے پی کے مخالفین پر انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور سی بی آئی کا خوف اس قدر زیادہ ہے کہ کھل کر اظہار خیال کرنے تیار نہیں ۔ سونیا گاندھی نے عملی سیاست کو ترک کرتے ہوئے خود کو دانشوروں اور سینئر سٹیزنس میں شامل کرلیا ہے ۔ سونیا گاندھی رائے بریلی سے لوک سبھا چناؤ نہیں لڑیں گی، انکی جگہ پرینکا گاندھی کانگریس کی امیدوار ہوسکتی ہیں۔ لوک سبھا کے طویل سفر کے بعد سونیا گاندھی نے راجیہ سبھا میں نئی اننگز شروع کی ہے۔ عوام کی بھلائی کے بجائے بی جے پی کا نفرت کا ایجنڈہ مددگار ثابت ہوا ہے۔ بی جے پی کا اصل ووٹ بینک ہندو سماج نہیں بلکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ہیں، جن کے ذریعہ مودی تیسری میعاد حاصل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ نریندر مودی کا نعرہ ہمیشہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس رہا لیکن اس نعرہ کا اثر ہندوستان سے زیادہ دیگر ممالک میں دیکھا جارہا ہے۔ بیرونی ممالک کے حکمراں مودی کو محض اس لئے احترام کی نظر سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہ زبانی طور پر سیکولرازم اور مذہبی رواداری کا پرچار کرتے ہیں۔ سیکولرازم اور مذہبی رواداری کا اصل مظاہرہ ملک میں ہونا چاہئے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ابو ظہبی میں مندرکی تعمیر کی اجازت دی گئی اور نریندر مودی نے مندر کا افتتاح کیا ۔ عرب ممالک تمام مذاہب کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن ہندوستان میں مسلمان اور ان کی عبادت گاہیں برداشت نہیں۔ ابوظہبی میں مندر کے افتتاح کے وقت کم از کم نریندر مودی کو ہندوستان میں مساجد کے خلاف جاری مہم کا خیال ضرور آیا ہوگا۔ بابری مسجد کو عدالت کے ذریعہ مندر میں تبدیل کرنے کے بعد متھرا اور کاشی کی مساجد پر بری نظریں ہیں۔ عرب ممالک کے سربراہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں جاننے کے باوجود بھی نریندر مودی کو رواداری کا درس دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ کئی عرب ممالک نے نریندر مودی کو اپنے ممالک کا اعلیٰ ترین سویلین اعزاز عطا کیا۔ جس شخص کے دامن پر گجرات فسادات کے دھبے ہوں ، انہیں عرب ممالک کی جانب سے اعزاز کا دیا جانا ہندوستانی مسلمانوں کے زخموں پر مرہم کے بجائے نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
جو لوٹتے ہو تو لوٹو مگر خیال رہے
تمہارا گھر بھی مرے گھر کے بعد آتا ہے