جو ہے گجرات کا قاتل اسے کس دن سزا ہوگی

,

   

بلقیس بانو کو انصاف … سپریم کورٹ پائندہ باد
نامکمل مندر کے افتتاح میں عجلت کیوں ؟

رشیدالدین
کسی بھی عمارت یا پراجکٹ کے افتتاح کا اعلان کیا جائے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ مکمل طور پر تیار ہے۔ ملک کی تاریخ میں شائد ہی کبھی ایسا واقعہ پیش آیا ہو جہاں ایک نامکمل عمارت یا پراجکٹ کو افتتاح کا نام دیا گیا ہو۔ ایودھیا میں 22 جنوری کو رام مندر کے افتتاح کا اعلان کرتے ہوئے بڑے پیمانہ پر تیاریوں کا آغاز کیا گیا ہے ۔ ملک بھر سے ہزاروں پنڈتوں اور سنگھ پریوار قائدین کو مدعو کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 40 فیصد تعمیری کام کی تکمیل کو افتتاح کیسے کہا جائے گا ۔ آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کو رام مندر کے افتتاح کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی تقریب میں توجہ کا مرکز رہیں گے۔ سیاسی مبصرین اور ہندو دھرم کی مذہبی شخصیتوں نے سوال کیا ہے کہ آخر نامکمل مندر کے افتتاح میں عجلت کیوں ؟ سنگھ پریوار مندر کی تعمیر تک اس لئے بھی انتظار نہیں کرسکتا کیونکہ لوک سبھا الیکشن میں مندر کے نام پر ووٹ حاصل کرنا ہے ۔ سیاسی فائدہ کیلئے نامکمل مندر کو مکمل عمارت کے طور پر پیش کرتے ہوئے نہ صرف عوام بلکہ خود بھگوان کو دھوکہ دیا جارہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب جنون سر پر سوار ہوجائے تو کسی کو دھوکہ دینے میں عار محسوس نہیں ہوتی۔ ہندو سماج کو یہ تاثر دیا جائے گا کہ رام مندر دراصل نریندر مودی کا کارنامہ ہے۔ نریندر مودی کے پاس 10 برسوں میں ایک بھی کام ایسا نہیں جسے کارنامہ کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ مودی حکومت نے عوام کے مسائل کم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کیا لیکن مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ووٹ حاصل کرنے کی تیاری ہے ۔ اگر مندر کے مکمل ہونے تک انتظار کیا جائے تو اقتدار ہاتھ سے نکلنے کا اندیشہ ہے ۔ ویسے بھی عوام کو اپنی جملہ بازی کے ذریعہ جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے میں مودی کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ 40 فیصد مکمل مندر کو صد فیصد تیار مندر کی طرح پیش کرنے کا فن اچھی طرح جانتے ہیں۔ افتتاحی تقریب دراصل ملک میں بی جے پی کی لوک سبھا انتخابی مہم کا آغاز ہے۔ نریندر مودی اور بی جے پی نے 22 جنوری کو ہر گھر میں دیپ جلانے اور روشنی کے انتظام کی اپیل کی ہے تاکہ دیپاولی کا سماں رہے۔ لوگ اپنے اپنے مقامات پر مندروں میں خصوصی پوجا کا اہتمام کریں گے ۔ بی جے پی جانتی ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذریعہ ہی ہندوؤں کو متحد کیا جاسکتا ہے لہذا ملک بھر میں جشن کا اعلان کیا گیا تاکہ مسلمان مشتعل ہوکر ردعمل ظاہر کریں۔ مندر کی افتتاحی تقریب سے قبل اور تقریب کے چند دن بعد تک عوام کو چوکس رہنا ہوگا۔ حالات بگاڑنے کی کسی بھی سازش کو ہندو اور مسلمان مل کر ناکام بنائیں۔ رام مندر کے افتتاح کے مسئلہ پر ملک کے 4 شنکر اچاریاؤں نے اختلاف کرتے ہوئے تقریب میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ہندو مذہب کے گرو مانے جانے والے چاروں شنکر اچاریہ اس بات پر ناراض ہیں کہ تعمیری کام کی تکمیل کے بغیر ہی تقریب کا اعلان کردیا گیا۔ بی جے پی اپنے سیاسی پلیٹ فارم کو قومی تقریب کا نام دے رہی ہے۔ دستور ہند کے مطابق کسی بھی حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور عبادت گاہیں تعمیر کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ حتیٰ کہ سرکاری تقاریب میں مذہبی رسوم انجام دینے کی ممانعت ہے۔ اگر مندر کا افتتاح قومی تقریب ہے تو گزشتہ 10 برسوں میں ایک بھی ایسی مثال پیش کی جائے جہاں مودی حکومت نے کسی اور مذہب کے تہوار یا تقریب کو قومی تقریب کے طور پر منایا ہو۔ ملک کو ہندو راشٹر کے راستہ پر گامزن کرتے ہوئے صرف اکثریتی طبقہ کی تقاریب کو قومی رنگ دیا جارہا ہے ۔ آج بھی ہندوؤں کی خاموش اکثریت کو ہندوتوا ایجنڈہ پسند نہیں ۔ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ، سب کا وشواس کا نعرہ لگانے والے نریندر مودی نے نہ سب کا ساتھ دیا ، نہ سب کا وکاس یقینی بنایا اور نہ سب کا وشواس حاصل کیا۔ وزارت عظمیٰ کا حلف لیتے ہوئے تمام طبقات سے انصاف اور کسی بھی طرح کا بھید بھاؤ نہ کرنے کی قسم کھانے والے نر یندر مودی بھول رہے ہیں کہ ان کی کابینہ میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ مختار عباس نقوی جو واحد مسلم چہرہ تھے، راجیہ سبھا کی میعاد کی تکمیل کے ساتھ ہی وزارت سے علحدہ کردیئے گئے ۔ مختار عباس نقوی سنگھ پریوار کے داماد ہیں لیکن مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ کابینہ میں داماد بھی پسند نہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں شائد یہ پہلا موقع ہے جب مسلم وزیر کے بغیر مرکزی کابینہ تشکیل پائی ہے۔ شاہنواز حسین کو مرکز سے ہٹاکر بہار تک محدود کردیا گیا ۔ مودی نے مسلم طلبہ کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں لیاپ ٹاپ دینے کا اعلان کیا تھا لیکن مسلمانوں کو عیدالفطر اور بقرعید کی مبارکباد پیش کرنے میں احتیاط سے کام لیا۔ الیکشن قریب آتے ہی مسلمانوں کو عیدین کی رسمی مبارکباد دی گئی ۔ ہر سال اجمیر شریف کو چادر روانہ کرنے سے مسلمانوں کے حقوق ادا نہیں ہوں گے۔ جان و مال ، عزت آبرو کی حفاظت اور معاشی ، تعلیمی اور سماجی سطح پر ترقی کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ماب لنچنگ کے واقعات کی مودی نے مذمت نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعات گجرات فسادات کے مقابلہ کچھ نہیں ۔ جب مودی کو گجرات فسادات کا افسوس نہیں ہے تو وہ تازہ واقعات پر کیا افسوس جتائیں گے۔
ملک میں رام مندر کی تحریک چلانے والے کوئی اور تھے لیکن مندر کی تعمیر کا سہرا مودی اپنے سر باندھنے تیار ہیں۔ انہوں نے مندر کے افتتاح کے دن تک جملہ 11 دن برت رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے خود کو ہندوؤں کے جذبات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے قائدین نے تحریک کا آغاز کیا تھا لیکن مودی نے ایسے تمام قائدین کو گوشہ گمنامی میں ڈھکیل دیا ہے ۔ رام مندر کے نام پر سیاست کرتے ہوئے افتتاحی تقریب میں شرکت نہ کرنے والوں کو ہندو دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کانگریس قائدین ، سونیا گاندھی ، ملکارجن کھرگے اور ادھیر رنجن چودھری کو افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی لیکن انہوں نے شرکت سے انکار کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلہ کیا ہے۔ کانگریس قیادت نے ووٹ بینک سیاست کی پرواہ کئے بغیر اپنے اصولوں کی پاسداری کی ہے۔ اگرچہ کانگریس کے بعض قائدین کو اندیشہ ہے کہ افتتاحی تقریب میں عدم شرکت سے کانگریس پارٹی ہندو ووٹ سے محروم ہوسکتی ہے لیکن قیادت نے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سیکولر عوام کا دل جیت لیا ہے ۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے کانگریس قیادت پر حملے تیز کردیئے اور انہیں مخالف ہندو ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ ویسے بھی جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو کانگریس پا رٹی ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے ۔ بی جے پی اور نریندر مودی دن رات حکومت کی 10 سالہ کارکردگی عوام کے درمیان پیش کر رہے ہیں۔ اگر حکومت کی کارکردگی اور کارنامے موجود ہیں تو پھر رام مندر کے نام پرووٹ مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کو انصاف فراہم کرتے ہوئے ملک میں عدلیہ کی غیر جانبداری اور بالادستی کا ثبوت دیا ہے۔ 2002 گجرات فسادات کے ہزاروں متاثرین انصاف کیلئے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ لیکن دوسری عدالتوں کے فیصلہ سے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں۔ بلقیس بانو کے 7 افراد خاندان کا بے دردی سے قتل کیا گیا اور عصمتوں سے کھلواڑ کیا گیا ۔ گجرات کی بی جے پی حکومت ہمیشہ کی طرح ملزمین کی سرپرستی کر رہی ہے۔ 15 اگست 2022 ء کو بلقیس بانو کیس میں جیل کی سز ا کاٹنے والے 11 مجرمین کی سزا معاف کرتے ہوئے رہا کردیا گیا۔ عدالت کی جانب سے سزا کے باوجود حکومت نے سزا معاف کرتے ہوئے مجرمین کی حوصلہ افزائی کی ۔ سپریم کورٹ نے جہد کاروں کی مدد سے طویل قانونی لڑائی آخرکار کامیاب رہی اور سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کے فیصلہ کو کالعدم کرتے ہوئے ملزمین کو دوبارہ جیل بھیجنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ وہی ملزمین ہیں جن کی رہائی کے بعد بی جے پی نے نہ صرف جشن منایا تھا بلکہ سمان کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بلقیس بانو مقدمہ کے ذریعہ دیگر مقدمات کے متاثرین کو حوصلہ دیا ہے کہ وہ انصاف کیلئے عدالت عالیہ سے رجوع ہوسکتے ہیں۔ بلقیس بانو کی طرح کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوہ بھی انصاف کیلئے عدالت کے چکر کاٹ رہی ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ عدلیہ بلقیس بانو کی طرح احسان جعفری کیس میں ملزمین کو سزا دے گی۔ گجرات فسادات کے ماسٹر مائینڈ قائدین اب دہلی میں اقتدار کی کرسیوں پر فائز ہیں۔ گجرات کے متاثرین کی آخری امید سپریم کورٹ ہے۔ بلقیس بانو مقدمہ کے فیصلہ کے بعد عوام کو دیگر مقدمات میں انصاف کا انتظار ہے۔ اسی جذبہ کو جوہر کانپوری نے کچھ اس طرح پیش کیا ہے ؎
بہت اچھا کیا دہشت پسندوں کو سزا دے کر
عدالت تیرے حق میں سب کے ہونٹوں پر دعا ہوگی
مگر ہر اک ہندوستانی تجھ سے پوچھتا یہ ہے
جو ہے گجرات کا قاتل اسے کس دن سزا ہوگی