یہ ایک موضوع ہے کہ انتخابات میں وزیراعظم ہندو مسلم ‘ اکثریت اقلیت بھڑکاتے ہیں جس کا مطالب وکاس پر بات ہوتا ہے
سال2019کی مہم شروع ہوگئی ہے اور چیالنج کی رفتار اونچائی پر ہے۔انتخابی مہم کے دوران مہارشٹرا کے واردھا میں پیر کے روز وزیر اعظم نریندر مودی نے خطاب کرتے ہوئے سمجھوتا ایکسپریس کے ملزمین کی برات کو موضوع بحث لاکر کانگریس پر حملہ کیا۔
انہوں نے ’’ ہندو دہشت گرد‘‘ کو مسترد بھی کیا اور انکار بھی کیا‘ کانگریس کو اس اصطلاح کے استعمال کا مورد الزام بھی ٹہرایا اور ’’ ہندو برہمی‘‘ کی وجہہ بھی پیش کرنے کی کوشش کی ‘ جس کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ کانگریس صدر راہول گاندھی نے کیرالا کے وایا نندکا انتخاب کیا جہاں پر بڑی غیر مسلم ہندو آبادی ہے کے طور پر دوسرا حلقہ ہے۔
وزیراعظم کا دعوی ہے ان کے عہدے کی مناسبت سے غیر واجبی ہے۔ اس لئے پہلا ’’ ہند و دشت ‘‘ کے نام سے گمراہ کرنا جوکہ ایک سیاسی حربہ ہے۔ سب سے اہم وزیراعظم نے سمجھوتا برات کو سیاسی رنگ دے کر شدت پسند ہندو تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
سمجھوتا کیس میں وزیراعظم نے عدالت کی ناراضگی کو پوری طرح نظر انداز کردیا۔
سال2007اور 2017کے علاوہ 2018میں بھی این اے ائی ‘مہارشٹرا اے ٹی ایس نے ان تنظیموں پر یواے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیاتھا۔وزیراعظم کے کرسی کے فائز ہونے کے باوجود نریندر مودی نے ہند و مسلم کارڈ کھیلنے سے گریز نہیں کیا ۔
ماضی میں بھی مودی نے اترپردیش کے اسمبلی الیکشن میں ایسے ہی بیان دیاتھا جو فرقہ وارنہ خطوط پر قابل اعتراض ہے۔ نریندرمودی نے رمضان میں برقی تو دیپاولی میں برقی کیوں نہیں‘ قبرستان کے لئے اراضی تو شمشان کے لئے زمین کیوں نہیں جیسی بات کہی تھی۔
ویسے جب سے نریندر مودی وزیراعظم بنے ہیں تب سے انہوں نے راست یا بالراست ایسے بیانات دئے ہیں جو نہ صرف قابل اعتراض ہیں بلکہ دستور ی عہدے کے وقار کومجروح کرنے کا سبب بنے ہیں۔
نریند رمودی اور بی جے پی کی انتخابی مہم سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ الیکشن جیتنے کے لئے کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں اور کسی بھی قسم کا بیان دے سکتے ہیں جو دستور عہدے پر فائز شخص کے لئے موضوع نہیں رہتا ۔اسی وجہہ سے ہم نے اس مضمون کا عنوان دیا ہے جیت حاصل کرنے کا حربہ