جی۔20 سربراہ اجلاسہندوستان کی سفارتی کامیابی

   

ایس ایم بلال
دارالحکومت دہلی میں 18ویں G-20 سربراہ اجلاس کا بڑی کامیابی کے ساتھ اختتام عمل میں آیا جس کے ساتھ ہی عالمی برادری نے ہندوستان کی قیادت اور قائدانہ صلاحیتوں کو تسلیم کیا۔ سب سے اہم بات یہ رہی کہ اوٹ کم ڈاکیومنٹس یا دستاویز کے تمام83 نکات پر اتفاقِ رائے پایا گیا جو ہندوستان کی دانشمندانہ سفارت کاری کو ثابت کرتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر ہندوستان کی اہمیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ویسے بھی ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے دور سے ہی عالمی سطح پر ہندوستان کے قائدانہ کردار کو تسلیم کیا گیا،بعد میں شریمتی اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی اور پھر ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دورِ حکمرانی میں بھی ہندوستان نے عالمی برادری میں نہ صرف اپنی اہمیت بڑھائی بلکہ ساری دنیا کو یہ بتایا کہ ہندوستان زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی، کامیابی و کامرانی کی راہ پر گامزن ہے۔ ہم بات کررہے تھے G-20 سربراہ کانفرنس سے برآمد ہوئے نتائج کی، اس سلسلہ میں آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ G-20 کا گذشتہ سربراہ اجلاس انڈو نیشیا کے تفریحی مقام بالی میں منعقد ہوا تھا لیکن اس میں کئی اہم نکات بشمول روس۔ یوکرین نتائج پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا تھا لیکن نئی دہلی میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ تمام 83 نکات پرG-20 کے رکن ممالک کا اتفاق رائے پایا گیا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ G-7 اور روس۔ چین کو بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے روس ۔ یوکرین تنازعہ پر ہندوستان کی غیرجانبدار پالیسی و غیرجانبدارانہ موقف کو قبول کرنا پڑا۔ اگرچہ یوکرین اس سے خوش نہیں ہے اس کے باوجود اس کی ناراضگی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
نئی دہلی ڈیکلریشن میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ، اس بات پر زور دیا گیا کہG-20 عالمی اقتصادی تعاون و اشتراک کا اہم فورم ہے اور رکن ممالک نے تسلیم کیا کہ G-20جغرافیائی اور سلامتی سے جڑے مسائل کا پلیٹ فارم نہیں ہے، اگرچہ ان مسائل کے عالمی معیشت پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان G-20 سربراہی اجلاس کا عنوان ’’ ایک زمین ، ایک خاندان اور ایک مستقبل ‘‘ رکھتے ہوئے ساری دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ ساری دنیا ایک خاندان ہے اور ساری دنیا کا مستقبل بھی ایک دوسرے سے جڑا ہے بلکہ اس کرۂ ارض کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچانا بھی ساری دنیا کے ملکوں اور ان کی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ اس عنوان کے ذریعہ ہندوستان نے یہ بھی پیام دیا ہے کہ عالمیانے کے فوائد تمام ملکوں تک پہنچنا ضروری اور لازمی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ G-20 سربراہ اجلاس کی کامیابی کا راز 200 گھنٹے کے بلاوقفہ و بلارکاوٹ جاری رہے مذاکرات اور بات چیت کا سلسلہ رہا۔ اس کے علاوہ 300 باہمی اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا اور 15 مسودوں کی تیاری عمل میں آئی۔ دستاویز میں ہر موضوع کا جائزہ لیا گیا مثلاً طرزِ حیات برائے ماحولیات (LIFE) ، ماحولیاتی تبدیلی، تجارت، ہمہ قومی ترقیاتی بینکوں میں اصلاحات اور ترقی پذیر ملکوں کی اہمیت میں اضافہ جیسے موضوعات کا بھرپور احاطہ کیا گیا۔ اس سربراہی اجلاس میں دشہت گردی اور FATF کی تائید و حمایت سے متعلق بھی اتفاقِ رائے پایا گیا۔ ویسے بھی تمام عالمی فورمس سے ہندوستان نے ہمیشہ دہشت گردی کی مذمت کا مطالبہ کیا اور چین نے بھی اس کی تائید کی نتیجہ میں پاکستان یکا و تنہا پڑگیا ہے۔
ہندوستان نے G-20 دستاویز کو برازیل، جنوبی آفریقہ اور انڈو نیشیا کے تعاون و اشتراک سے پیش کیا۔ یہ وہ ملک ہیں جو مستقبل میں G-20 کی صدارت کریں گے۔ آپ کو بتادیں کہ G-20 سربراہ اجلاس کے دوران 55 رکنی آفریقی یونین کو یوروپی یونین کے مماثلG-20 کا مستقل رکن بنایا گیا تاکہ اس تنظیم یا گروپ میں نمائندہ ملکوں کی تعداد بڑھائی جاسکے کیونکہ آفریقی یونین میں سے صرف جنوبی آفریقہ جیسا ملک ہی G-20 کا رکن تھا۔ آفریقی یونین کو G-20 میں شامل کئے جانے سے G-20 میں گلوبل ساؤتھ کی آواز کی اہمیت بڑھ جائے گی جس میں ایک طویل عرصہ سے G-7 ملکوں کو غلبہ حاصل ہے۔ G-20 میں آفریقی یونین کی شمولیت G-20 کے اختتام اورG-21 کے آغاز کی علامت ہے۔G-20 رکن ملکوں نے اقوام عالم پر زور دیا ہے کہ عالمی قوانین کے اُصولوں کا احترام کریں۔ ان اُصولوں میں علاقائی سالمیت کی برقراری، اقتدار اعلیٰ، عالمی انسانی قوانین کا اپنانا اُن پر عمل کرنا اور عالمی امن و استحکام کی برقراری میں مدد کرنے والے ہمہ رُخی‘ ہمہ قومی میکانزم کی تائید و حمایت کرنا شامل ہیں۔
G-20 سربراہی اجلاس کا ہندوستان میں انعقاداس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ عالمی رہنماؤں کی ایک کثیر تعداد بشمول امریکی صدر جوبائیڈن، سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان ، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردغان، برطانوی وزیر اعظم رشی سونک، فرانسیسی صدر ایموانول مائکرون ، کنیڈین وزیر اعظم جٹسن ٹرڈیو، جاپانی وزیر اعظم فیومیو کشیڈا اور دوسروں نے شرکت کی۔ سربراہی اجلاس کے اپنے اختتام کو پہنچنے سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے G-20 کی صدارت رسمی طور پر برازیلی صدر لوئسزانا کیولولاڈی سلوا کے حوالے کی۔ دوسری طرف نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت اس کے وزیر اعظم اور خود بی جے پی قائدین نے یہ دعویٰ کیا کہ حکومت نے G-20 کے ذریعہ ساری دنیا میں بھارت کی شبیہ ایک عالمی لیڈر کے طور پر بنانے میں کامیابی حاصل کی لیکن اپوزیشن جماعتوں نے واضح اور پُرزور انداز میں یہ الزام عائد کیا کہ G-20 سربراہ اجلاس کو مودی جی کی حکومت نے اپنی تشہیر کا ذریعہ بنایا اور عوام کو ایسا تاثر دیا گیا کہ G-20 سربراہ اجلاس کے ذریعہ وزیر اعظم نریندر مودی نے عالمی سطح پر ہندوستان کا قد بڑھایا ہے، اس کے وقار میں اضافہ کیا ہے اور یہ صرف اور صرف مودی کے باعث ممکن ہوسکا۔ G-20 کو لیکر مودی جی اور ان کی حکومت پر اپوزیشن نے جو الزامات عائد کئے ہیں اس میں حقیقت کا پہلو بھی نظرآتا ہے کیونکہ دہلی میں ہر طرف صرف مودی کی تصاویر نظر آرہی تھیں۔ ہاں! ایک بات ضرور ہے کہ G-20سربراہ اجلاس کے دوران ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان جو معاہدات طئے پائے، اعلانا ت ہوئے ، صدر جمہوریہ دروپدی مرمو اور وزیر اعظم نریندر مودی سے سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جو ملاقاتیں ہوئی ہیں ان سے ہند۔ سعودی تعلقات کو ایک نئی جہت ملی ہے۔سعودی عرب نے ہندوستان کے مختلف شعبوںمیں 100 ارب ڈالرس کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ اس ضمن میں ہندوستان اور سعودی عرب کے اعلیٰ سطحی وفود کے اجلاس منعقد ہوئے۔