جی ڈی پی پر وزارت فینانس کا بیان

   

ہر سال یہی کہتے ہیں گلشن کے نگہباں
امسال نہیں فصل بہار اب کے برس ہے
جی ڈی پی پر وزارت فینانس کا بیان
مرکزی وزارت فینانس نے یہ واضح کیا ہے کہ ہندوستان کی جی ڈی پی 2022 میں بہتری کی سمت آئے گی اور یہ 19 فیصد تک پہونچ سکتی ہے ۔ یہ وضاحت ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جبکہ ملک کی جی ڈی پی منفی 24 ڈگری تک پہونچ گئی ہے ۔ سارا ملک اس بات پر پریشان اور متفکر ہے کہ اگر جی ڈی پی کا یہی حال رہا تو پھر ملک کی معیشت کہاں پہونچ جائے گی اور ملک کے عوام کو کس حد تک مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا ۔ مہنگائی کس حد تک بڑھ جائیگی ۔ صنعتی پیداوار میں کس حد تک گراوٹ آجائے گی ۔ زرعی پیداوار معمول کے مطابق رہتی بھی ہے تو دوسرے شعبہ جات کی منفی کارکردگی سے حالات کس حد تک دگر گوں ہوجائیں گے ۔ مرکزی حکومت گذشتہ کئی برسوں سے یہ دعوے کرتی آ رہی ہے کہ ملک کی معیشت کی حالت انتہائی بہترین ہے حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ نوٹ بندی اور پھر جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد سے ہی معیشت منفی گراف اختیار کرتی جا رہی تھی ۔ اس میں مسلسل گراوٹ درج کی جا رہی تھی ۔ عوام کو مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ مہنگائی مسلسل بڑھتی جا رہی تھی ۔ روز مرہ کے استعمال کی اشیا بھی عوام کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی تھی ۔ دودھ اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات بھی مہنگی ہوتی جا رہی تھیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت پر حکومت مسلسل اکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے خزانے بھر نے میں مصروف رہی تھی اور عوام کو ہونے والی پریشانیوں اور مسائل سے اسے کوئی سروکار نہیں رہ گیا تھا ۔ تیل کمپنیوں کو الگ سے چھوٹ دیدی گئی تھی اور پھر اکسائز ڈیوٹی میںمسلسل اضافہ کرتے ہوئے عوام کو معمولی سی بھی راحت پہونچانے سے حکومت نے گریز کیا تھا ۔ اسٹاک مارکٹ کی اتھل پتھل نے بھی حالات کو دگرگوں کردیا تھا ۔ ایک ایک دن میں لاکھوں کروڑ روپئے سرمایہ کاروں نے گنوادئے تھے ۔خانگی شعبہ کی کمپنیاں اور ادارے الگ مسائل اور پریشانیوں کا شکار تھے ۔ ان کی پیداوار میں کمی آگئی تھی کیونکہ ان کی تیار کی جانے والی اشیا کی مارکٹوں میں مانگ کم سے کم ہوتی جا رہی تھی ۔ یہ سب کچھ اس لئے تھا کیونکہ عوام کی قوت خرید کم ہوگئی تھی ۔
کورونا وائرس اور پھر لاک ڈاون کے اثرات نے الگ معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہونچا دیا ہے ۔ کروڑ ہا افراد اپنے روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ عوام کی جیب میں پیسے نہیں رہ گئے ہیں۔ عوام دو وقت کی روٹی کے حصول کیلئے بھی تگ و دو کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان سب حالات کے باوجود حکومت کوئی اقدام کرنے کو تیار نظر نہیں آتی ۔ حکومت الٹا نہ صرف موجودہ ملازمتوں کو کم سے کم کرتی جا رہی ہے اور خانگی شعبہ کو بھی عوامی شعبہ کی کمپنیاں فروخت کرتے ہوئے سرکاری ملازمتوں کی تعداد کو گھٹاتی جا رہی ہے ۔ نوجوانوں کیلئے مستقبل تابناک بنانے کی بجائے تاریک کیا جا رہا ہے ۔ سالانہ دو کروڑ روزگار اور ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والی مودی حکومت ہر سال لاکھوں کی تعداد میں روزگار گھٹاتی جا رہی ہے ۔ اس کی پالیسیوں اور پروگراموں سے الگ خانگی شعبہ میں ملازمتیں گھٹتی جا رہی ہیں۔ حکومت صرف نعرے بازے اور دلخوش کن تیقنات دینے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ حقیقی اعداد و شمار کو پیش کرنے کی بجائے اعداد و شمار کے الٹ پھیر پر حکومت اکفاء کرنے لگی ہے ۔ حکومت کی جانب سے کسی بھی اہم شعبہ میں ہونے والے نقصانات کا کوئی ڈاٹا نہیں رہ گیا ہے ۔ حکومت کو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ لاک ڈاون کے بعد سے اب تک کتنے لوگ اپنی ملازمتوں اور نوکریوں سے محروم ہوگئے ہیں اور کتنے لوگ لاک ڈاون کے دوران اور اسکے بعد اپنے آبائی مقامات کو واپسی کی کوشش میں اور حالات کی وجہ سے جان گنوا بیٹھے ہیں۔
وزارت فینانس کی جانب سے اب جو امید پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کا بھی کوئی خاص پس منظر نہیں نظر آتا اور نہ ہی حکومت کا کوئی پروگرام یا اقدام ایسا ہونے کی امید ہے جس سے معیشت میں اچانک سے جان پیدا ہوجائے ۔ سب سے پہلے تو جو کروڑ ہا افراد بیروزگار ہوئے ہیں انہیں دو وقت کی روٹی فراہم کرنا بھی حکومت کیلئے آسان نہیں ہوگا اور نہ ہی روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی کوئی امید نظر آتی ہے ۔ ایسے میں وزارت فینانس کی جانب سے جو کہا جا رہا ہے کہ 2022 تک جی ڈی پی بہتر ہوگی یہ بھی عوام کو گمراہ کرنے اور محض زبانی تسلی اور دلاسہ دینے کی کوشش ہے ۔ واقعی اگر ایسا کچھ ہونے کی امید ہے تو حکومت کو اپنے پروگرامس اور منصوبے بھی عوام میں پیش کرنا چاہئے ۔