حالات ِحاضرہ اور تعلیم ِنسواں

   

فوزیہ امجد
تعلیم کی مسلمہ اہمیت اور حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا، یہ انسانی شعور کو بیدار کرتی ہے، انسانی ماحول کے اطراف و اکناف سے روشناس کرواتی ہے، اچھے اور برے فرق کو نمایاں کرتی ہے، انسانی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگرکرتی ہے، روزی روٹی کی فراہمی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اللہ کی مخلوقات میں انسان کو اشرف مخلوقات کہا گیا ہے جو ذہنی صلاحیتیں انسان کو عطا کی گئی ہیں، ان کو روبہ کار لاکر انسان دنیا میں اپنی پہچان اور مقام بناتا ہے۔ تعلیم کا تعلق ان ہی ذہنی صلاحیتوں پر مبنی ہے۔
کرۂ ارض پر انسانی زندگی کی شروعات ہوئی تو اس نے اپنے تجربات کی روشنی میں بہت کچھ سیکھا ، اپنے علم اور معلومات میں اضافہ کرتا گیا ۔ جب خانہ بدوش زندگی سے سکونت پذیر ہوا تو سماجی، معاشی، مذہبی اور تہذیبی طور پر منظم ہوکر زندگی کے مختلف میدانوں میں ترقی کرتا گیا۔ تعلیم اور علم ایک ہی سکے کے دو ہیں۔ تعلیم کے ذریعہ علم میں اضافہ ہوتا ہے جو انسانی زندگی کے ہر موڑ پر مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ابتدائی دور میں کاموں کی تقسیم، عمر اور جنس کی اساس پر ہوتی تھی، مرد کی ذمہ داری گھر کی کفالت کرنا، عورت کی ذمہ داری گھر کی چار دیواری میں رہ کر ضروریات زندگی کی تکمیل کرنا، مرد اور عورت کے درجوں میں کافی فرق تھا۔ زرعی سماج میں تعلیم عموماً غیررسمی ہوتی تھی۔ موروثی فن ایک نسل سے دوسری نسل کو مشاہدے اور تجربے کے ذریعہ منتقل ہوتا تھا۔ زرعی سماج سے صنعتی سماج تک وقت نے پلٹا کھایا۔ رسمی تعلیم کا دور شروع ہوا، کوئی بھی کام سیکھنے کیلئے اسکول اور کالج میں داخلہ ضروری تھا۔ ڈگری یافتہ ہونا ضروری تھا۔ ابتدائی تعلیم و دینی معلومات کی حد تک محدود تھی۔ خواہ کسی بھی مذہب کا ہو، ایک خاص طبقہ دینی تعلیم حاصل کرتا، ہندوؤں میں برہمن، مسلمانوں میں مولوی اس کے ذمہ دار تھے۔ جدید دور میں حصول تعلیم میں تبدیلیاں آتی گئیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے تعلیم کو ایک نیا موڑ دیا۔ دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کئے گئے۔ تعلیم کی وسعت بلالحاظ مذہب و ملت، ذات پات و جنس وسیع ہوتی گئی۔ آج لڑکیاں بھی لڑکوں کے شانہ بشانہ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ زندگی کے ہر میدان میں اپنی شناخت اور پہچان بنارہی ہیں۔ باوجود اس کے آج بھی بہت لوگوں کی رائے تنگ نظری پر مبنی ہے جس کے متعدد وجوہات ہیں۔ لڑکوں کے مقابل میں لڑکیوں کو خوش آمدید نہیں کیا جاتا۔ ظاہری طور پر ان کو قبول کرلیا جاتا ہے۔ بے توجہی اور احساس کمتری کے سبب ان کی شخصیت دب کر رہ جاتی ہے۔ لوگوں کے خیالات اور بعض اوقات خود لڑکی کی رائے میں کتنا بھی پڑھ لکھ لو گھر کی ذمہ داری سنبھالنی پڑتی ہے، ہمت کو اور بھی پست کردیتا ہے، اِسی سوچ اور ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ خواہ مرد ہو کہ عورت تعلیم یافتہ ہونا اس دور کا سب سے بڑا تقاضہ ہے۔ وہی شخص زمین پر قدم جما سکتا ہے جو تعلیم کے ذریعہ معلومات میں اضافہ کرتا ہے اور ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ تعلیم کا سب سے اہم پہلو معاشی پہلو ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا ماں باپ کی سب سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سماج کے تمام باعزت پیشوں میں اگر مرد کامیابی سے کام کررہا ہے تو عورت کا بھی اس میں عمل دخل ہونا چاہئے۔ مستقبل میں ناگہانی حالات سے نمٹنے کیلئے تعلیم کام آتی ہے۔ عورت اپنی کوشش اور جدوجہد کے ذریعہ سماج کی متعدد برائیوں کے خلاف لڑسکتی ہے۔ ذات پات، جنس کا فرق، جہیز لین دین کا مسئلہ، بچپن کی شادی، گھریلو تشدد، احساس برتری اور کم تری ان برائیوں کی جڑ تک پہنچنے کیلئے تعلیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ جدید دور میں اکثریت لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں باشعور ہے۔ اس سلسلے میں سماجی خدمات، مذہبی رہنمائی اور قانون کی عمل آوری سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ حکومت بھی تعلیم کی سہولت مہیا کرے تو شہری تعلیم یافتہ ہوسکتے ہیں۔ بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت ماں کی بڑی ذمہ داری ہے، اس لئے اس کا تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے۔ وزیراعظم نے نعرہ دیا ہے ’’بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ خاندان اور سماج کی تنگ نظری کی وجہ سے اس پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کونسلنگ کے ذریعہ سوچ میں تبدیلی لانا ہوگا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں روز 200 لڑکیوں کا قتل ماں کے پیٹ میں کیا جاتا ہے جبکہ 92 عصمت ریزی کے کیسیس سامنے آتے ہیں۔تعلیم کے نتائج ہمیشہ مثبت ہوتے ہیں لیکن تعلیم یافتہ عورت کو سماج میں مسائل و مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اس رنگ کو پھیکا نہ پڑنے دیجئے بلکہ تعلیم کے ذریعہ نکھاریئے تاکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں اور عزت و احترام کے ساتھ زندگی گذار سکیں۔