حاکم ا ور زمیندار

   

بچو! ایک حاکم بڑا ظالم تھا۔ حاکم کو شکار کا شوق تھا ، اس نے حکم دے رکھا تھا کہ بار برداری کے لئے ایک مضبوط گدھا جس کے پاس ہو ، فوراً بیگار میں پکڑ لیا جائے۔ایک بار یہی حاکم شکار کھیلتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے چھوٹ کر کسی گاؤں میں جا نکلا ۔ حاکم نے وہاں یہ عجیب ماجرہ دیکھا کہ ایک زمیندار اپنے گدھے کو ڈنڈے مار مار کر لنگڑا کررہا ہے۔ زمیندار کی یہ حرکت دیکھ کر حاکم کو بہت غصہ آیا، اس نے ڈانٹتے ہوئے کہا : ائے ظالم ! بے زبان جانور پر اتنا ظلم کیوں کررہا ہے؟ زمیندار نے نہایت سادگی سے کہا : میاں سپاہی ! تم کیا جانو گدھے کا لنگڑا ہونا ہی اچھا ہے۔ اگر یہ تندرست رہا تو حاکم کی بیگار میں پکڑا جائے گا اور اس کے ساتھ مَیں بھی بیگار میں مارا مارا پھروں گا۔زمیندار ابھی یہی باتیں کہہ رہا تھا کہ حاکم کے ملازم اسے تلاش کرتے ہوئے وہاں آپہنچے ۔ حاکم نے ملازموں کو حکم دیا، اس زمیندار کو گرفتار کرلو۔اب تو بے چارہ زمیندار بہت گھبرایا اور پنجرے کے پنچھی کی طرح تڑپنے لگا کہ مجھے آزاد کردو، لیکن حاکم نے ایک نہ سنی زمیندار نے بہت منت سماجت کی ۔ بہت رویا پیٹا مگر کوئی تدبیر کام نہ آئی۔ آخر جھلا کر بولا : او ظالم !مجھ لاچار غریب کو سزا دینے سے کیا تیری بدنامی کم ہوجائے گی۔ تیرے ظلم و ستم کا رونا تو گھر گھر رویا جارہا ہے ، اس لئے اپنا ظالمانہ حکم واپس لے لے یا تمام رعایا کو ایک ہی بار میں قتل کردے ۔ پھر نہ کوئی زندہ بچے گا، نہ تیری ناانصافی کی شکایت کرے گا۔حاکم اس وقت تو غصے میں تھا ، چپ ہوگیا ، زمیندار کو حوالات میں بند کردیا گیا۔ دوسرے دن کچہری میں ملزم کی پیشی کا وقت آیا ،حاکم کو زمیندار کی بات یاد تھی۔ اس نے سوچا کہ زمیندار نے جو کہا سچ کہا چنانچہ اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ زمیندار کو عزت کے ساتھ رہا کردیا جائے۔ وہ ایک نڈر اور انصاف پسند آدمی ہے۔ ایسے ہی آدمی کو گاؤں کا سردار ہونا چاہئے۔ زمیندار کو ادھر گاؤں کا سردار بنایا گیا ، اُدھر حاکم نے بیگارکا حکم واپس لے کر شکار سے توبہ کرلی۔