حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اﷲعلیہ

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی (استاد جامعہ نظامیہ)
نحمدہ و نصلی و نسلم علی رسولہ الکریم (ﷺ )  !
اﷲسبحانہ و تعالیٰ نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اﷲعلیہ کو دو بڑے احسانات سے نوازا ہے۔ پہلا یہ کہ آپ کو پہلی صدی ہجری میں پیدا کرکے ’’خیرالقرون‘‘ میں شامل فرمایا اور دوسرا یہ کہ آپ کو پلند پایہ ’’فقہی بصیرت‘‘ سے نوازا۔ صحابہ عظام اور عظیم تابعین کی صحبت بافیض نے امام صاحب کی اس خدا داد صلاحیت کو مزید نکھارا، جس کی بناء پر آپ نے قرآن اور حدیث کا فہم ، مسائل کا اخراج، احکام کے استنباط میں نئی فکر کی بنیاد رکھی۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی ولادت کے متعلق اختلاف ہے۔
۱۔ اسّی (۸۰) ہجری میں ہوئی (جمہور ائمہ کے نزذیک یہی تاریخ مقبول و مختار ہے)۔۲۔ ستر (۷۰) ہجری میں ہوئی۔
۳۔ اکسٹھ (۶۱) ہجری میں ہوئی۔
آپ کا نام نعمان۔ کنیت ابو حنیفہ۔ لقب امام اعظم ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب کچھ اسطرح سے ہے : نعمان بن ثابت بن زوطٰی۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں خلیفۂ چہارم حضرت سیدنا علی کرم اﷲوجہہ الکریم کی دعا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے دادا زوطیٰ ، جن کااسلامی نام نعمان تھا، مسلمان ہونے کے بعد جب وہ کوفہ منتقل ہوئے تو سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اصحاب یعنی ان کے ہم نشین اور عقیدت مندوں میں شامل ہوگئے۔
حضرت امام اعظم ؒ کے پوترے حضرت اسماعیل بن حماد سے ہی روایت ہے فرماتے ہیں ’’میرے دادا امام ابوحنیفہ کے والد محترم ثابت جب وہ کم عمر کے تھے، حضرت علی رضی اﷲعنہ کی بارگاہ میں پیش ہوئے تو آپ رضی اﷲعنہ نے ثابت کے لئے اور انکی اولاد کیلئے دعا کئے‘‘۔ (ابن حجر ہیتمی، سیوطی، خطیب بغدادی، تاریخ بغداد)
ایک دفعہ حضرت امام اعمش رحمۃ اﷲعلیہ سے کچھ مسائل دریافت کئے گئے اور اسوقت محفل میں حضرت امام صاحب بھی تشریف فرما تھے تو انہوں نے امام صاحب کی طرف رجوع کیا۔ پس امام صاحب تمام مسائل کے جوابات دیدیئے۔ امام اعمش علیہ الرحمہ نے دلیل طلب کی تو آپ نے وہی احادیث و روایات پیش کیں، جو خود امام اعمش سے مروی تھیں۔ اس استنباط پر امام اعمش حیران رہ گئے اور امام صاحب کی تحسین کرتے ہوئے فرمائے ’’ائے گروہ فقہاء آپ طبیب ہیں اور محدثین ادویات والے ہیں‘‘۔ یہی وجہ تھی امام اعمش علیہ الرحمہ سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو آپ فرماتے ’’لوگو تم ابوحنیفہ کی مجلس میں ضرور جایا کرو‘‘۔
محدث کبیر حضرت امام سفیان بن عیینہ (متوفی ۱۹۸ ہجری) امام صاحب کی فقاہت کے متعلق بیان کرتے ہیں ’’جو شخص علم مغازی کو جاننا چاہے، وہ مدینہ منورہ کا رخ کرے۔ جو مناسک حج سیکھنا چاہے، وہ مکہ مکرمہ کی راہ لے اور جو دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنا چاہے، وہ کوفہ جاکر اصحابِ ابوحنیفہ کے حلقہ درس میں جا بیٹھے‘‘۔
امام خوارزمی علیہ الرحمہ (متوفی ۶۶۵ ہجری) اپنی کتاب جامع المسانید میں لکھتے ہیں ’’امام ابوحنیفہ ہی وہ شخص ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے علم شریعت کو مدون کیا اور اس کی ابواب بندی کی‘‘۔ فقہ اور حدیث کے امام صاحب کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ نہ صرف تابعی ہیں، بلکہ صحابہ و تابعین کی خیرالقرون جماعت کے ساتھ منسلک بھی تھے۔حضرت امام اعظم ؒ ذہین اور قوی حافظہ کے مالک ہیں۔ آپ کا زہد و تقوی فہم و فراست اور حکمت بہت ہی مشہور ہیں۔ امام صاحب تقریبا سات ہزار (۷۰۰۰) مرتبہ قرآن مجید ختم کئے۔ رات بھر نفل نماز کے ذریعہ قرآن مجید ختم کرتے۔ اس طرح دن میں دین اسلام کی اشاعت فرماتے اور رات میں عبادت الٰہی میں مشغول رہتے۔
حضرت امام اعظم ؒایک تاجر (کپڑوں کی تجارت) تھے۔ بادشاہوں کے نذرانے قبول نہیں فرماتے تھے۔ کثرت سے خوشبو استعمال کرنے والے تھے، فضـول کاموں سے اجتناب فرماتے اور کسی بھی دنیا دار کی ملامت سے خوف نہیں کھاتے تھے۔
حضرت شیخ الاسلام حافظ محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ حقیقۃ الفقہ جلد اول میں تحریر فرماتے ہیں کہ اسّی (۸۰) ہجری آپ کی پیدائش کا یہ وہ متبرک زمانہ ہے کہ بہت سے صحابہ عظام رضی اﷲعنہم اجمعین اُس میں موجود تھے، مگر آفتاب وجود صحابہ غروب ہونے کو تھا۔ اُدھر صحابہ بحسب ارشاد ’’فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘ سرگرم اشاعت علوم تھے، اِدھر مسلمانوں پر یہ خیال مسلط تھا کہ ایسا نہ ہوکہ کوئی ارشاد اپنے نبی کریم ﷺ کا، صحابہ ہی کے ساتھ واپس ہوجائے، جس سے تمام امت مسلمہ مرحومہ محروم رہ جائے۔ چنانچہ تذکرۃ الحفاظ میں امام ذہبی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ حضرت امام صاحب نے انس بن مالک رضی اﷲعنہ کو کئی بار دیکھا ہے، جس سے امام صاحب کا تابعی ہونا ثابت ہے۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت امام اعظم کو فضل و حکمت اور علم عطا فرما۔ پس یہی وجہ تھی کہ سب خوارج توبہ کرکے داخل اسلام ہوگئے۔
(اخذ: حقیقۃ الفقہ جلد اول صفحہ ۲۲۳ تا ۲۲۷)
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا وصال دو (۲) شعبان المعظم ایکسوپچاس (۱۵۰) ہجری کو ہوا۔
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ o
zubairhashmi7@yahoo.com