حضرت بندہ نواز گیسودراز قدس سرہٗ کی تعلیمات

   

شخصیت کی تعمیر اور تہذیب اخلاق ، ضبط نفس اور ضبط اوقات کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس راہ میں صوفیاء کرام سے بڑھ کر کوئی گروہ صد فیصد کامیاب نہیں ہوسکا ۔ صوفیاء کرام کی ذواتِ قدسیہ کو ہم خوارق عادات اور کرامات کے تناظر میں دیکھنے اور سننے کے عادی ہوگئے ہیں جبکہ وہ اپنے مقاصد اور اہداف میں سب سے زیادہ موثر واقع ہوئے ہیں۔ دعوت وتبلیغ ، رشد و ہدایت کے علاوہ اُمت اسلامیہ کی مشکل سے مشکل وقت میں عروج و زوال ، فتنوں اور آسودگی و خوشحالی کے ہر دور میں نہایت حکمت کے ساتھ اُمت اسلامیہ کی رہبری، دستگیری ، اعلاء کلمۃ اللہ اور اسلام کی عزت و شوکت کے تحفظ کا عظیم فریضہ بحسن و خوبی ادا کیا ہے ۔

پروفیسر خلیق احمد نظامی تاریخ مشائخ چشت جلد اول ص : ۳۵ میں رقمطراز ہیں : ’’یورپ کے مستشرق جب اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا سیاسی زوال کبھی ان کے دینی نظام کو تباہ نہ کرسکا بلکہ بقول پروفیسر ہٹی (Hitti) اکثر ایسا ہوا کہ ’سیاسی اسلام ‘ کے نازک ترین لمحات میں مذہب اسلام نے بعض نہایت شاندار کامیابیاں حاصل کیں (History of Arab, P.475) ہولینڈ کے ایک فاضل لوکے گارد (Frede Looke Gaard) نے دبے انداز میں اس بات پر استعجاب کا اظہار کیا ہے کہ گو اسلام کا سیاسی زوال تو بارہا ہوا لیکن روحانی اسلام میں ترقی کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ (Islam Taxation in the Classic Period, Copenhagen 1950) بعد ازاں انگلستان کے ایک مشہور ذی علم مستشرق پروفیسر ایچ آر گب کی اکسفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی تقریر کا حوالہ کوٹ کرتے ہیں : ’’تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا ہے لیکن بایں ہمہ وہ مغلوب نہ ہوسکا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تصوف یا صوفیہ کا اندازِفکر فوراً اس کی مدد کو آجاتا تھا اور اس کو اتنی قوت اور توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی ‘‘ ۔
(Islamic Culture 1942, P.265)
یہ پست ہمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم آج اولیاء کرام و بزرگان دین کی کرامتوں سے متاثر و مرعوب ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کے نقش قدم پر چلنے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کاحوصلہ نہیں رکھتے ۔ اہلسنت والجماعت کے نزدیک اولیاء کرام سے کرامتوں کا صدور ثابت ہے تاہم عملی انقلاب اور روحانی ترقی کیلئے ان کی عقیدت و محبت کے ساتھ ان کی تعلیمات کو اختیار کرنا ناگزیر ہے۔

حضرت سید محمد بندہ نواز گیسودراز قدس سرہٗ العزیز ، مشائخ چشت میں دعوت و تبلیغ ، تصنیف و تالیف اور رشد و ہدایت میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے دکن کو آپ کی پاکیزہ ہستی سے عزت بخشی ۔ آپ حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید خاص و خلیفہ اجل ہیں۔ پیر و مرشد قدس سرہٗ آپ کی ریاضت اور مجاہدہ سے بہت متاثر ہوئے ۔ ایک موقعہ پر فرمایا : ستر برس کے بعد ایک لڑکے نے پھر مجھ میں شوریدگی پیدا کردی ہے اور پہلے زمانہ کے واقعات مجھے یاد دلادیئے ہیں (سیرمحمدی ص : ۱۶) چنانچہ پیر و مرشد کی شفقت روز بروز بڑھتی گئی ، ایک بار خود خطیرۂ شیرخان تشریف لے گئے (جہاں حضرت گیسودراز علیہ الرحمہ عبادت کیا کرتے تھے ) اور اپنے محبوب مرید کو کچھ روپئے بھی نذرانے میں پیش کئے جس کے بعد سے حضرت گیسودراز کی بڑی شہرت ہوئی اور باکمال صوفیہ کہا کرتے تھے کہ اس شخص کو جوانی میں ’’مقام پیران واصل و مقتدیان کامل‘‘ کا درجہ حاصل ہے ۔ (نفس حوالہ)
کتاب ’’بزم صوفیہ‘‘ میں مرتب نے حضرت گیسودراز علیہ الرحمہ کی تصنیف ’’خاتمہ ‘‘ سے آپ کی تعلیمات کو جمع کیا ہے ۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں: ’’سالکوں کو ہمیشہ باوضو رہنا چاہئے ، ہر فرض نماز کے لئے تازہ وضو کرنا بہتر ہے ، وضو کے بعد تحیۃ الوضو ادا کریں، بے وضو نہ سوئیں، فجر ، عشاء اور مغرب کی نمازوں میں قراء ت لمبی نہ ہو ( مسنون قراء ت سے کم نہ ہو ) نماز میں حضورِ قلب مقدم ہے ۔ فجر کی سنت پڑھنے کے وقت سے اشراق کی نماز پڑھنے تک حتی الوسع کسی سے نہ بولیں۔ زوال کے وقت قیلولہ کریں تاکہ شب بیداری میں سہولت ہو۔ رات کو تین حصوں میں تقسیم کریں، پہلے حصہ میں اوراد و وظائف میں مشغول رہیں۔ دوسرے حصہ میں سوئیں ، تیسرے حصے میں ذکر اور مراقبہ کریں ۔ کم سونے کے لئے کھانے اور پینے میں تقلیل ضروری ہے ۔ رات کے آخری حصہ میں اُٹھ کر تہجد پڑھیں۔ تہجد کے بعد اواراد و وظائف اور تلاوت کلام پاک ، ذکر اور مراقبہ میں مشغول رہیں لیکن ان سب میں مراقبہ عزیز ترین مشغلہ ہے ۔ اگر کوئی سالک شہرت کی خاطر عبادت و ریاضت کو ترک کرتا ہے تو وہ ریاکار اور منافق ہے ۔ روزہ ارکان تصوف میں ہے اس لئے صوفی کے لئے روزہ رکھنا ضروری ہے ۔ روزے سے نفس مغلوب رہتا ہے اور اس میں غرور اور عجب پیدا نہیں ہوتا ۔ ایک مرید حقیقت و طریقت کو شریعت کا ضد نہ سمجھے ، بلکہ ان میں سے ہرایک کو دوسرے کاخلاصہ تصور کرے ۔

جب تک ایک شخص تمام دنیاوی چیزوں سے فارغ نہ ہوجائے راہِ سلوک میں گامزن نہ ہو اور جب وہ کسی کا مرید ہوکر خلوت میں بیٹھے تو اپنے اور دوسروں کے تمام حقوق ادا کرے ۔ اس میں مطلق ریا اور غصہ نہ ہو ، دنیاداروں کی مجلسوں اور محفلوں سے دور رہے ۔ وہ کسی دوسرے کے خیر و شر سے واسطہ نہ رکھے ۔ اس کے دل میں جتنی ہوس ہو اس کو دور کردے اگر دور نہ ہو تو مجاہدہ و ریاضت کرتا رہے ، اس کو ہمیشہ اپنی موت کا منتظر رہنا چاہئے ، ایسی تفریح سے جو جائز بھی ہو ، پرہیز کرے، آج کاکام کل پر نہ اُٹھا رکھے۔ کسی حال میں اپنے نام کی شہرت نہ دے ، بازار میں شدید ضرورت کے وقت جائے ۔ فقہاء نے طہارت و لطافت کی جو باتیں بتائی ہیں ، ان پر عمل کرے ، ان سے زیادہ پر عمل کرنا بیکار ہے ، گرسنگی ، تشنگی اور شب بیداری کو دوست رکھے ، مصیبت کے وقت مضطر اور مضطرب نہ ہو ، کسی حال میں نہ روئے ، روئے بھی تو اس لئے کہ کہیں منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے اس کو موت نہ آئے۔ اپنی درازی عمر کے لئے خداوندتعالیٰ سے دعا کرے تاکہ راہِ سلوک میں اس کو ترقی درجات حاصل ہو ۔ پند و نصائح کا فرض انجام نہ دے کیونکہ یہ کام کاملوں کا ہے ، سلوک پر کوئی کتاب لکھنے کی بھی کوشش نہ کرے کیونکہ یہ کام عارفوں کا ہے ۔ زیادہ تر خاموش رہے ۔