حضرت بی بی فاطمۃ الزھرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی (مدرس جامعہ نظامیہ)
حضـور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اور ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ولادت بیس جمادی الاخریٰ قبل اعلان نبوت مکہ معظمہ میں ہوئی۔ آپؓ تمام امت مسلمہ کے نزدیک ایک برگزیدہ ہستی رہیں۔ آپؓ کا نکاح خلیفۂ چہارم حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا۔ آپ کے دو(۲) صاحبزادے (حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما) اور دو(۲) صاحبزادیاں (حضرت زینب اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہما) رہے۔ آپؓ کا وصال ۳؍ رمضان المبارک ۱۱ ہجری کو ہوا۔ آپؓ کے القاب: مبارکہ، طیبہ، طاہرہ، ذکیہ، رضیہ، زہرا، بتول اور سیدۃ نساء العالمین ہیں۔
آپؓ کی ابتدائی تربیت حضورپاکؐ اور حضرت خدیجۃ الکبریؓ نے کی۔ اس کے علاوہ انکی تربیت میں اولین مسلم خواتین شامل رہیں۔ آپؓ نے اسلام کا ابتدائی زمانہ پایا اور اچھی طرح سے دیکھا بھی کہ کتنی تنگی، اسلام کی اشاعت میں برداشت کی گئی۔۲ ہجری تک حضرت فاطمہ ؓحضرت فاطمہؓ بنت اسد کے زیر تربیت رہیں، اسکے بعد حضرت ام سلمی ؓکے سپرد کیا گیا۔ حضرت ام سلمی ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ ؓبہت ہی مؤدب تھیں اور مجھ سے بہتر جانتی تھیں۔ حضور اکرم ﷺسے بے انتہا محبت کرتی تھیں۔ عمران بن حصین کی روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ وہ حضور اکرم ﷺکے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، حضرت فاطمہ ؓ(کم سنّی میں) تشریف لائیں۔ بھوک کی شدت سے ان کا رنگ متغیر تھا۔ حضور اکرم ﷺنے دیکھ کر فرمایاائے بیٹی ادھر آؤ! جب آپ قریب آئیں تو رسول اکرم ﷺ دعاء فرمائے کہ ائے بھوکوں کو سیر کرانے والے پروردگار، ائے پستی کو بلندی عطا کرنے والے پروردگار: فاطمہ کے بھوک کی شدت کو ختم فرمادے۔ اس دعاء کے بعد حضرت فاطمہ ؓکے چہرے کی زردی تبدیل ہوگئی۔ چہرہ ہشاش بشاش ہوگیا۔ آپ ؓخود فرمانے لگیں کہ اس کے بعد مجھے پھر کبھی بھوک کی شدت نے پریشان نہیں کیا۔
خاتون جنت حضرت بی بی فاطمہ ؓکا نکاح، حضرت سیدنا علی ؓ سے دو(۲) ہجری میں ہوا۔ شادی کے بعد آپؓ کی زندگی، خواتین کیلئے ایک بے مثال رہی۔ گھر کا کام خود ہی کیا کرتی تھیں۔ کبھی کوئی شکایت نہیں کرتی تھیں۔اور نہ ہی کوئی مددگار کا مطالبہ کیں۔
حضرت فاطمہ ؓکی عمر جب انتیس سال کی تھی کہ حضور اکرم ﷺ رحلت فرمائے۔ آپ ؓ آپ ﷺکی محبوب بیٹی تھیں۔ حضور ﷺاپنی رحلت سے قبل بلابھیجے، وہ تشریف لائیں تو ان سے کان میں کچھ باتیں کی گئیں تو وہ رونے لگیں۔ پھر بلاکر کچھ کان میں باتیں کی گئیں تو ہنس پڑیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا تو کہنے لگیں : پہلی دفعہ آپ ﷺنے فرمایا کہ میں اِسی مرض میں رحلت کرجاؤنگا، تب میں رونے لگی۔ پھر فرمائے میرے خاندان میں سب سے پہلے تم مجھ سے آکر ملوگی، تو میں ہنسنے لگی۔
حضور اکرم ﷺکی رحلت کے چھ ماہ بعد،۳؍ رمضان المبارک ۱۱ہجری کو حضرت فاطمہ ؓوصال فرما گئیں۔ اور جنت البقیع میں مدفون ہویں۔
آپؓ کی فضیلت کے متعلق بہت ساری روایات ہیں، ان میں سے چند زیر مطالعہ ہیں:{۱} حضورنبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’ میری بیٹی کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس سے محبت کرنے والوں کو دوزخ سے الگ تھلگ کردیا ہے ‘‘(دیلمی، کنز العمال بروایت حضرت جابرؓ) {۲} حضورنبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’فاطمہؓ میری جان کا ٹکڑا ہے، پس جس نے انہیں نارا ض کیا،وہ مجھے ناراض کیا ‘‘(بخاری شریف بروایت حضرت مسور بن مَخْرَمہ){۳} حضورنبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’جب سیدہ فاطمہ ؓآپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ﷺخوش آمدید کہتے، کھڑے ہوکر انکا استقبال کرتے، انکا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھالیتے‘‘(حاکم، مستدرک بروایت حضرت عائشہ ؓ){۴} ’’حضور پاک ﷺجب بھی سفر کا ارادہ کرتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد، جس سے گفتگو فرماکر سفر پر روانہ ہوتے، وہ حضرت فاطمہ ؓہوتیں۔ اور جب سفر سے واپس ہوتے تو سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لے جاتے، وہ بھی حضرت فاطمہؓ ہی ہوتیں تھیں ‘‘(ابوداؤد شریف بروایت حضرت ثوبانؓ) {۵} ’’حضرت نبی کریم ﷺکو عورتوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت فاطمہؓ سے تھی اور مردوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ محبوب تھے‘‘ (ترمذی شریف بروایت حضرت بریدہؓ){۶} ’’حضور نبی کریم ﷺکی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ سے بڑھ کر کسی کو عادات و اطوار، سیرت و کردار اور نشست و برخاست میں آپ ﷺ سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا‘‘ (ترمذی شریف بروایت حضرت عائشہؓ)
{۷} ’’انداز گفتگو میں کسی کو بھی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر حضور ﷺسے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا گیا‘‘ (بخاری شریف بروایت حضرت عائشہؓ){۸} ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : ہم حضور نبی کریم ﷺکی تمام ازواج مطہرات آپ ﷺکے پاس جمع تھیں اور کوئی ایک بھی ہم سے غیر حاضر نہ تھی، اتنے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہاں آگئیں، پس اللہ کی قسم انکا چلنا حضور ﷺکے چلنے سے ذرّہ بھر مختلف نہیں تھا‘‘ (بخاری شریف بروایت حضرت مسروقؓ)