حضرت سید شاہ ولی اﷲ محمد قادری ؒ

   

الحاج مرزا نثار علی بیگ القادری
حضرت سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ولی وہ ہے جسے دیکھ کر خدا یاد آجائے ۔ اولیاء اﷲ حضور انور صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا زندہ معجزہ ہیں۔ اولیاء کی جماعت میں دکن کی سرزمین پر ایک برگزیدہ ہستی حضرت سیدنا میراں شاہ ولی اللہ محمد قادری گذرے ہیں جو سلسلۂ قادریہ کے بزرگ حضرت میراں سید شاہ حبیب اﷲ محمد قادری کے فرزند ارجمند و جانشین ہیں۔ حضرت میراں قادری کا سلسلۂ خلافت اٹھارہ (۱۸) واسطوں سے سیدنا غوث الاعظم ابومحمد شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے جاملتا ہے ۔ آپؒ چند سال گلبرگہ شریف میں سکونت پذیر رہے ، اُس کے بعد حیدرآباد کو اپنا مسکن بنالیا ۔ نظام الملک آصف جاہ اول ۱۱۳۷ھ میں حیدرآباد آئے تو انھوں نے حضرت قدس سرہ کی بڑی تعظیم و تکریم کی ۔ نواب انوارالدین خان صوبیدار کرناٹک اور ان کے فرزند نواب محمد علی خاں سراج الدولہ والا جاہ حضرت کے مریدان خاص میں تھے۔ امیر صندل خاں مرید ہوئے تو پالکی نذر کرکے کہاروں کی تنخواہ اپنے جیب خاص سے مقرر کردی ۔ آپؒ کے علم و فضل کی بڑی دھوم تھی ۔ مشائخ کبار اور علمائے باوقار آپؒ کو بڑی قدر و منزلت سے دیکھتے تھے ۔ آپؒ صاحب تصنیف تھے چنانچہ آپؒ نے تصوف اور دیگر علوم و فنون پر متعدد کتابیں لکھیں ۔ آپؒ نے اپنے والد ماجد کے حکم پر ۱۱۴۰ ھ میں معرفت السلوک کادکھنی اردو نثر میں ترجمہ فرمایا ۔ایک روز ماہِ رمضان المبارک میں بعد نماز تراویح دیر تک مراقبہ میں رہے پھر فرمایا ، اے صاحبو! آج انوارالدین خاں صوبیدار کرناٹک نے میدان جنگ میں مجھ سے مدد چاہی میں ان کی طرف متوجہ تھا الحمدﷲ تائید ربانی سے نواب صاحب کو فتح نصیب ہوئی ۔ حاضرین نے آپ کا یہ ارشاد تاریخ و ماہ کے ساتھ قلمبند کرلیا۔ کچھ عرصہ کے بعد نواب صاحب حیدرآباد آئے اور حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور استعانت کا ذکر کیا۔ اپنی فتح کی تاریخ جو لکھی گئی حضرت کی خدمت میں گذرانی مریدین نے دونوں تواریخ کا تقابل کیا تو وہی پایا ۔ آپؒ کا وصال ۲۹ محرم الحرام ۱۱۵۷ ھ م ۱۷۴۴ء کو ہوا ۔ محلہ آصف نگر متصل مسجد والا جاہی کے وسیع و عریض چبوترہ پر آپ کا مزار پاک زیارت گاہِ خواص و عوام بنا ہوا ہے ۔ حضرت کے برادر حضرت میراں سید شاہ ظاہرالدین محمد قادری کو آپؒ نے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اپنا جانشین بنایا ۔