حضورـآباد اسمبلی حلقہ پھر ایک بار سیاسی جماعتوں کی توجہ کا مرکز

   

دوباک کی طرح بی جے پی پُرامید، کانگریس کے امکانی نئے صدر کیلئے پہلا چیلنج
حیدرآباد۔ حضورآباد اسمبلی حلقہ پھر ایک مرتبہ سیاسی جماعتوں کیلئے توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ سابق وزیر ایٹالہ راجندر کے اسمبلی کی رکنیت سے استعفی کے بعد ضمنی چناؤ ناگزیر ہوچکا ہے۔ ناگرجنا ساگر ضمنی چناؤ کے بعد سیاسی حلقے مطمئن تھے کہ 2023 تک تلنگانہ میں کوئی ضمنی چناؤ نہیں ہوگا لیکن ٹی آر ایس میں اچانک تبدیلیوں اور کابینہ سے راجندر کی برطرفی نے ایک اور ضمنی چناؤ لازمی کردیا ہے۔ ٹی آر ایس ، بی جے پی اور کانگریس نے ابھی سے اس حلقہ پر توجہ مرکوز کرکے حکمت عملی طئے کرنا شروع کردیا ہے۔ راجندر کی بی جے پی میں شمولیت کے امکانات کو دیکھتے ہوئے صدر ریاستی بی جے پی بنڈی سنجے کمار اور دیگر قائدین کو یقین ہے کہ دوباک کی طرح حضورآباد میں پارٹی کو کامیابی حاصل ہوگی۔ راجندر یہاںکافی مقبول ہیں اور حضورآباد کو سابق وزیر کا مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔ راجندرکی بی جے پی میں شمولیت کے فیصلہ کے ساتھ ہی کیڈر متحرک ہوچکا تھا۔ اس کے علاوہ راجندر کے حامی بھی ضمنی چناؤ کیلئے تیار ہوگئے۔ راجندر 2009 سے مسلسل کامیابی حاصل کررہے ہیں۔ حیدرآباد، رنگاریڈی اور محبوب نگر ایم ایل سی نشست پر شکست کے بعد بی جے پی کے حوصلے کسی قدر پست تھے کیونکہ بی جے پی کے سٹنگ ایم ایل سی رامچندر راؤ کو شکست ہوئی تھی ۔ ٹی آر ایس نے حضور آباد کیلئے اپنے امیدوار کو قطعیت نہیں دی ہے اور اطلاعات کے مطابق چیف منسٹر لمحہ آخر میں امیدوار کا اعلان کریں گے۔ حضور آباد میں ضمنی چناؤ کانگریس کے امکانی نئے صدر کیلئے امتحان رہے گا۔ پردیش کانگریس کے نئے صدر کا کسی بھی وقت اعلان ہوسکتا ہے۔ ایسے میں نئے صدر کیلئے حضور آباد کا ضمنی چناؤ پہلا امتحان رہے گا۔ گزشتہ اسمبلی چناؤ میں کانگریس ٹکٹ پر مقابلہ کرچکے کوشک ریڈی ان دنوں ٹی آر ایس حلقوں میں سرگرم ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی کے ٹی آر کے ساتھ تصاویر سوشیل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہیں جس کے بعد سے کانگریس میں ہلچل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کوشک ضمنی چناؤ میں ٹی آر ایس ٹکٹ کیلئے کوشش کررہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزارت سے علحدگی کیلئے راجندر پر اراضیات پر قبضہ کا جو الزام عائد کیا گیا تھا اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کیلئے ٹی آر ایس نے کوشک ریڈی کا استعمال کیا۔ ٹی آر ایس کے اخبار اور ٹی وی چینل پر روزانہ کوشک ریڈی کو پیش کرکے راجندر کے خلاف الزام تراشی کی گئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دو قومی اور ایک علاقائی جماعت میں حضورآباد کے رائے دہندوں کا فیصلہ کس کے حق میں رہے گا۔