حفاظتی اقدامات کا فقدان

   

احباب کے فریبِ مسلسل کے باوجود
کھنچتا ہے دل خلوص کی آواز پر ابھی
حفاظتی اقدامات کا فقدان
کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے والا طبی عملہ جن میں ڈاکٹرس ، نرسیس اور صفائی ورکرس اس جان لیوا مرض کا شکار ہورہے ہیں ۔ ہندوستان میں حفاظتی آلات کی کمی سے کئی ڈاکٹرس وائرس کی زد میں آرہے ہیں ۔ تلنگانہ کے کئی ڈاکٹروں نے حفاظتی انتظامات نہ ہونے پر خود کو مریضوں سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ صورتحال نازک ہے ۔ حکومت ہند سے لے کر ریاستی حکومتوں کو محفوظ آلات اور دیگر حفاطتی ساز و سامان نہ ہونے سے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی جان بچانے میں جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے ۔ کورونا وائرس کے روک تھام کے لیے بہتر انداز سے کام کرنے سے قاصر مودی حکومت اور اس کا تائید میڈیا اصل مسائل سے نظریں بچا کر تبلیغی اجتماع کے واقعہ کو زور و شور سے پیش کررہا ہے ۔ یہ ایک مجرمانہ غفلت ہے جو کورونا وائرس کی سنگین صورتحال سے چھٹکارا نہیں دلا سکے گی ۔ حکومت اپنے بچاؤ کے لیے عوام کو دیگر مشغولوں میں مصروف کررہی ہے ۔ کبھی تالی اور تھالی کا سہارا لیا جارہا ہے تو کبھی گھروں کی لائٹ بند کر کے موم بتی یا دیپ جلاکر روشنی کروائی جارہی ہے ۔ اس طرح کی حرکتوں پر تنقید کرتے ہوئے اپوزیشن قائدین نے حکومت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس بھی دلایا ہے ۔ لیکن یہ حکومت خود کو تمام برائیوں اور خرابیوں سے پاک سمجھتی ہے ۔ اس لیے اس پر اپوزیشن کی باتوں اور تنقیدوں کا بھی کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا ۔ ترنمول کانگریس نے وزیراعظم مودی کے دیپ جلاؤ کی اپیل کے جواب میں سوال کیا کہ آیا مودی حکومت اس ملک کے پریشان عوام کو راحت پہونچانے کے لیے کچھ ٹھوس کام کرنے کا مظاہرہ کرے گی ۔ مودی حکومت کو لاک ڈاؤن سے ہونے والی خرابیوں بیروزگاری میں اضافہ سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ بنانے پر دھیان دینا چاہئے ۔ جی ایس ٹی کی مد میں ریاستوں کو ملنے والے حصہ کو جاری کرنا چاہئے لیکن مودی حکومت ان اہم موضوعات کو نظر انداز کررہی ہے ۔ کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی نے ملک میں حفاظتی آلات کی کمی پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ جب سیفٹی کا مسئلہ نازک مرحلہ میں پہونچ جائے تو کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرس ، نرسوں اور طبی عملہ کے دیگر ارکان کی زندگیاں بھی خطرے میں ہوں گی ۔ ایک طرف لاک ڈاؤن نے لاکھوں افراد کو بھوک میں مبتلا کردیا ہے تو دوسری طرف حفاظتی انتظامات نہ ہونے سے طبی عملہ کی بڑی تعداد کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں ۔ ملک کی موجودہ صورتحال ناگفتہ دکھائی دے رہی ہے ۔ ایسی تباہی پھیلی ہے کہ حکومت اس پر پردہ ڈالنے کے لیے تبلیغی اجتماع کا سہارا لے رہی ہے ۔ لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں ۔ اس ماہ اپریل میں ہی بیروزگاری کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے ۔ کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے کیا جانے والا لاک ڈاؤن ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دے رہا ہے ۔ یہ ملک چند ہفتوں میں کورونا وائرس کی سونامی کے خطرہ کا سامنا کرے گا تو حکومت کے پاس کوئی تیاری ہی نہیں ہے ۔ حکومت نے ڈاکٹرس کے لیے حفاظتی اقدامات ہی نہیں کئے ہیں ۔ ڈاکٹرس کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا گیا ۔ بعض ڈاکٹرس کو رین کوٹس اور موٹر سیکل کی ہیلمٹس پہن کر کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے ۔ اس سے صحت عامہ کے سسٹم میں خامیوں کی پول کھلتی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ چین اور جنوبی کوریا سے بھاری مقدار میں حفاظتی آلات لانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن یہ آلات ہنوز ہندوستان نہیں پہونچے ۔ وبا سے جنگ کرنے والے درجنوں ڈاکٹرس مناسب حفاظتی بندوبست کے ہی کام کررہے ہیں ۔ اترپردیش میں سرکاری ہاسپٹلوں کے لیے کام کرنے والے ایمبولنس کے 4700 ڈرائیورس نے احتجاج کی دھمکی دی ہے کہ اگر انہیں مناسب حفاظتی آلات اور صحت بیمہ فراہم نہیں کیا گیا تو وہ کام بند کریں گے ۔ اگر ایسے حفاظتی انتظامات نہیں کئے گئے تو پھر آئندہ ماہ مئی کے آنے تک ملک میں ایک لاکھ سے زائد افراد کے متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے ۔ ہندوستان میں صحت عامہ پر جی ڈی پی 1.3 فیصد خرچ کیا جاتا ہے جو دنیا میں صحت عامہ پر خرچ کیے جانے والے فنڈس سے بہت ہی کم ہے ۔ حکومت اصل مسائل پر توجہ نہ دے تو پھر یہ ملک تالی ، تھالی ، روشنی اور دعاؤں کے سہارے مسائل سے کتنی دیر تک لڑتا رہے گا۔۔ ؟