حکومت، ڈاکٹر منموہن سنگھ سے مشورہ کیوں نہیں لیتی؟

   

پی چدمبرم

چند دن قبل ڈاکٹر منموہن سنگھ اور پروین چکرورتی کا ایک مشترکہ مضمون (موقر انگریزی روزنامہ دی ہندو کی 3 اگسٹ کی اشاعت) میں شائع ہوا۔ دونوں نے غیرمعمولی انداز میں ہندوستانی معیشت کے احیاء اور اس کے امکانات پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر سنگھ اور پروین چکرورتی کا مضمون تین سیدھے سادے مقاصد پر مشتمل ہے۔ ایک تو عوام میں اعتماد بحال کرنا، دوسرا بینکرس میں اعتماد بحال کرنا اور تیسرے عالمی اداروں کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ ان مقاصد کو کس طرح عملی جامہ پہنایا جائے اس تعلق سے عمدہ تجاویز اور مشورے بھی دیئے گئے۔ یہ ایسی تجاویز اور مشورے ہیں جو قومی معیشت اور عوام کا خیال رکھنے والی اہل حکومت کی فہم و فراست اور صلاحیت کے دائرہ میں ہی ہے یعنی حکومت کے لئے ان تجاویز اور مشوروں پر عمل کرنا مشکل نہیں ہے۔

تاہم جیسا کہ پیش قیاسی کی گئی تھی، ڈاکٹر منموہن سنگھ اور مسٹر پروین چکرورتی کے اس انتہائی اہم مضمون پر کسی قسم کا سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کوئی بھی یہ پوچھ سکتا ہے کہ آیا حکومت کو ہر مضمون پر ردعمل ظاہر کرنا چاہئے؟ اس سوال کا جواب ’’نہیں‘‘ ہے لیکن دی ہندو میں جو مضمون شائع ہوا ہے وہ کوئی معمولی مضمون نہیں ہے بلکہ ہندوستان کو غیرمعمولی معاشی اصلاحات کی راہ پر کامیابی سے گامزن کرنے والے سابق مرکزی وزیر فینانس (5 سال تک خدمات انجام دی) اور سابق وزیراعظم (10 سال تک وزیراعظم رہے) ڈاکٹر منموہن سنگھ اس مضمون کے معاون مصنف ہیں۔ جیسا ہوسکتا ہے ویسا رہنے دیں ہی ڈاکٹر سنگھ اور چکرورتی کی قابل قدر تجاویز اور مشوروں کا ہے اس مضمون میں پیش کردہ تجاویز سے آپ میں سے ہر کوئی جڑا ہوسکتا ہے یا اس سے متعلق ہوسکتا ہے اور اُس میں اپنے اطراف و اکناف کی حقیقت دیکھیں گے۔ میں نے اپنے آبائی ضلع شیون گنگائی اور ٹاملناڈو کے دوسرے پڑوسی اضلاع میں اس کی کوشش کی۔ ذیل میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے خیالات پیش کئے جاتے ہیں
لوگوں کے بیچ : لوگوں میں رقم خرچ کرنے یا مصارف کے تعلق سے خوف پایا جاتا ہے۔ ان کے پاس زیادہ رقم نہیں ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ اپنی ملازمتوں اور روزگار سے محروم ہوچکے ہیں یا ان میں ملازمتوں سے امکانی محرومی کا خوف پایا جاتا ہے۔ ایسے میں اس وقت کیا ہوگا جب کوئی بیمار ہوجائے اور اسے اسپتال میں بھرتی کئے جانے کی ضرورت ہو۔ لوگ جو کچھ تھوڑی بہت رقم اپنے پاس ہے اسے بچاکر رکھ رہے ہیں اس کے برعکس اگر کسی کے پاس بہت زیادہ رقم ہے تو وہ سونے میں سرمایہ مشغول کررہے ہیں۔ سونا خرید رہے ہیں (سونے کی خریدی سے غیر یقینی حالات کا اندازہ ہوتا ہے) دوسری طرف اگر ہم کرنسی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عوام کے پاس 31 جولائی تک 26,72,446 کروڑ روپئے قدر کی کرنسی تھی۔ ڈیمانڈ (طلب) اور ٹائم ڈپازٹس کا جہاں تک سوال ہے 12 ماہ کے دوران ان میں بالترتیب 12.0 فیصد اور 10.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ صرف جن مقامات پر عوام خرچ کرنے تیار ہیں وہ کرانہ اسٹورس، سبزی و پھلوں کی دوکانات اور فارمیسز (میڈیکل اسٹورس) ہیں نتیجہ میں بے شمار ریٹیل آؤٹ لیٹس صارفین کا انتظار کررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں ملبوسات، جوتے، چپلوں کی دوکانات، فرنیچرس، کھلونوں، کھانے پینے کے مقامات / ریسٹورنٹس، الیکٹرانکس وغیرہ کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں جو صارفین کے منتظر ہیں۔

لوگوں میں کورونا وائرس کے پھیلنے کا اس قدر خوف پایا جاتا ہے کہ کئی لوگ ڈاکٹروں یا اسپتالوں سے رجوع ہونے سے بھی گریز کررہے ہیں۔ کئی جنرل پریکٹشنرس نے اپنے کلینکس بند کردیئے ہیں۔ مقامی ویدوں یا اطباء کی KASHAYAM کیلئے طلب بڑھ گئی ہے۔ ملک میں موجودہ صورتحال کے باعث آیوش کی دوبارہ اہمیت بڑھ رہی ہے۔
کس طرح ان حالات میں طلب کا احیاء ہوگا؟
لہذا ڈاکٹر منموہن سنگھ نے عوام کو رقم کی منتقلی کی ضرورت کا اعادہ کیا ہے۔ شائد ہندوستان دنیا کا واحد بڑا ملک ہوگا جس نے رقم کی منتقلی سے اجتناب کیا ہے یہاں تک کہ اس بات کا خوف پایا جاتا ہے کہ ایسے کروڑہا لوگ جو خط غربت سے کچھ اوپر ہیں غربت کے دلدل میں گرسکتے ہیں۔

بینکروں میں ، میں نے جس سے بھی بات کی ہے ان میں سے کسی نے بھی وزیر فینانس نرملا سیتارامن کی جانب سے دیئے جارہے مسلسل بیانات پر یقین نہیں کیا۔ انھیں وزیر فینانس کے بیانات پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ دوسری طرف ریزرو بینک آف انڈیا نے اس بات کا انتباہ دیا ہے کہ این پی ایز میں مارچ 2021 ء تک 14.7 فیصد کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی بینکر امکانی قرضداروں کی موجودہ بیالنس شیٹ پر قرض نہیں دے گا۔ حکومت نے 3 لاکھ کروڑ روپئے کی جو کریڈٹ گیارنٹی اسکیم کا اعلان کیا تھا اس کا حشر دیکھئے حالانکہ مرکزی حکومت نے اس اسکیم کا بڑے پیمانے پر دھوم دھام سے اعلان کیا تھا۔ ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ حکومت، بینکوں کو یہ ضمانت دے گی کہ وہ قرض دہندگان کے تقریباً 3 لاکھ کروڑ روپئے قرض ادا کرے گی۔ ہم نے یہ سمجھا تھا کہ جملہ قرض 30 لاکھ کروڑ کا ہوگا۔ بظاہر ہم غلط تھے۔ حکومت نے اب اس امر کا اشارہ دیا ہے کہ اُس نے جملہ صرف 3 لاکھ کروڑ روپئے تک قرض دینے کا وعدہ کیا تھا جس میں سے 1,36,000 کروڑ روپئے منظور کئے جاچکے ہیں اور 87,227 کروڑ روپیوں کی تقسیم بھی عمل میں آچکی ہے۔ اس پر مجھے ایک ٹامل محاورہ یاد آتا ہے جو اس طرح ہے۔ ’’گدھے نے خود کو کالی چیونٹی تک گھٹادیا ہے‘‘ حکومت نے بڑی دھوم دھام سے مذکورہ اسکیم کا اعلان کیا تھا جس سے تاجرین اور کاروباری حضرات و ادارے کافی خوش ہوگئے تھے لیکن ان کی وہ خوشی زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکی۔ اس اسکیم کو لے کر Self Employed پیشہ وارانہ ماہرین بھی بہت خوش تھے۔ تاہم قرض حاصل کرنے والوں میں کوئی اعتماد کی کیفیت نہیں دیکھی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ تروپور گارمنٹ انڈسٹری اپنی گنجائش کی صرف 30 فیصد پیداوار کررہی ہے جبکہ جاب ورک کی اکائیاں اپنی گنجائش کے حساب سے صرف 60 فیصد کام کررہی ہیں۔ اسی طرح ایک ہارڈویر مرچنٹ سمنٹ ڈیلر یا فائر ڈیلر عام حالات کے ٹرن اوور کا صرف 20 فیصد تک ہی محدود ہوگیا ہے اور وہ صرف اور صرف اپنی ڈیلرشپ برقرار رکھنے کے لئے ایسا کررہا ہے۔ امکانی قرض دہندہ اس بات کو لے کر فکرمند ہے کہ وہ قرض ادا نہیں کرپائے گا۔ اگر اس کے پاس رقم ہوتی تو وہ اسے کاروبار میں استعمال کرتا، اگر رقم نہیں ہے تو پھر وہ کم گنجائش پر کام کرنے کے لئے مجبور ہے۔