حکومتیں جو بدلتا ہے وہ مزاج بھی ہو

,

   

کرناٹک … بی جے پی کو شکست کا خوف
راہول اور پرینکا … کانگریس کے اچھے دن کی امید

رشیدالدین
اقتدار کو سیاسی اصطلاح میں ریوالونگ چیر یعنی گھومتی کرسی کہا جاتا ہے۔ کسی بھی پارٹی کیلئے اقتدار دائمی نہیں ہوتا۔ پتہ نہیں کب رائے دہندوں کا دل بدل جائے۔ جمہوریت میں عوام کو بادشاہ گر کا درجہ حاصل ہے اور جس دن بھی عوام نظر پھیر لیں کوئی بھی پارٹی حکومت سے اپوزیشن میں پہنچ جاتی ہے اور اقتدار کے تخت سے کب زمین پر آگئے پتہ نہیں چلتا۔ بدلتے وقت کے ساتھ الیکشن میں عوام کی حصہ داری کم ہونے لگی ہے اور غیر جمہوری طریقوں کے ذریعہ کامیابی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ۔ 2014 ء کے بعد سے بی جے پی نے مرکز اور ریاستوں میں انتخابی دھاندلیوں کو ہوا دے کر کامیابی حاصل کرنے کا فن سیکھ لیا۔ لاکھ کوششوں کے باوجود ہماچل پردیش ، پنجاب اور مغربی بنگال میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔آئندہ سال لوک سبھا عام انتخابات سے قبل چند ریاستی اسمبلیوں کے چناؤ بی جے پی اور کانگریس کے لئے سیمی فائنل کی طرح ہیں۔ کرناٹک میں 10مئی کو بی جے پی حکومت کے مستقبل کا فیصلہ ہوجائے گا جس کے بعد نومبر میں چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش اور میزورم میں سیاسی فیصلے ہوں گے ۔ ڈسمبر میں راجستھان اور تلنگانہ جیسی اہم ریاستوں کے چناؤ ہوں گے۔ چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس کا وقار داؤ پر ہے جبکہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی اور تلنگانہ میں بی آر ایس کیلئے کرو یا مرو کی صورتحال رہے گی۔ کانگریس اور بی جے پی کے لئے اسمبلی نتائج اس اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں کہ مرکز میں اقتدار کا راستہ ان ریاستوں سے ہوکر گزرے گا۔ کے سی آر نے ٹی آر ایس کو بی آر ایس میں تبدیل کرتے ہوئے قومی سیاست میں اہم رول ادا کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ بی آر ایس کی قومی سطح پر قبولیت کا انحصار اسمبلی نتائج پر رہے گا۔ وزیراعظم کا خواب دیکھنے والے کے سی آر کے لئے کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ دہلی کی لالچ میں تلنگانہ کی کرسی چھن جائے۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کرناٹک کے نتائج قومی سطح پر سیاسی تبدیلیوں اور نئی صف بندیوں کا آغاز ثابت ہوں گے۔ کرناٹک کے بعد بی جے پی کو مدھیہ پردیش بچانا ہے جبکہ کانگریس کے لئے راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کامیابی کیک واک ثابت نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس اور بی جے پی نے کرناٹک چناؤ میں اپنی تمام تر توانائیاں جھونک دی ہیں۔ مہاراشٹرا کی طرح کرناٹک میں بی جے پی نے اقتدار کیلئے غیر جمہوری توڑ جوڑ کی سیاست کو اختیار کیا۔ کرناٹک میں یدی یورپا کے بعد بسواراج بومائی کو چیف منسٹر کی حیثیت سے تاج پوشی کی گئی جو بی جے پی میں داخلی خلفشار کا ثبوت ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی کے حالات سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ وہ اس لئے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں عوام نفرت اور فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو پسند نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ بسواراج بومائی کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ سے ناراض ہوکر کئی اہم قائدین کانگریس کا رخ اختیار کرچکے ہیں۔ مودی ۔ امیت شاہ جوڑی کو جیسے ہی محسوس ہوگیا کہ عوام حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں تو انہوں نے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو ہوا دینے کا فیصلہ کیا۔ الیکشن سے عین قبل مسلم تحفظات کو ختم کردیا گیا۔ رائے دہندوں میں خوف پیدا کرنے کیلئے امیت شاہ نے کہا کہ اگر کانگریس کامیاب ہوتی ہے تو فرقہ وارانہ فسادات ہوں گے ۔ کرناٹک کے عوام بسواراج بومائی حکومت میں حجاب ، اذاں ، لو جہاد اور عیدگاہوں میں نماز سے روکنے جیسے تنازعات کو بھولے نہیں ہیں۔ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے ذریعہ مسلم طالبات کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ مسلم طلبہ و طالبات میں 12 ویں کے امتحانات میں ٹاپ کرتے ہوئے فرقہ پرستوں پر واضح کردیا کہ فرقہ وارانہ ایجنڈہ میں اُلجھ کر وہ تعلیم سے دور نہیں ہوں گے۔ شیر میسور ٹیپو سلطان کے نام پر نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی ۔ ٹیپو سلطان پر جبراً تبدیلیٔ مذہب کا الزام عائد کیا گیا جبکہ وہ اپنی رواداری کیلئے شہرت رکھتے ہیں ۔ ٹیپو سلطان کی فوج میں اہم عہدوں پر ہندوؤں کو فائز کیا گیا تھا انگریزوں کے خلاف آخری سانس تک جنگ کرنے والے سورما کو مخالف ہندو حکمراں کے طور پر پیش کیا گیا۔ ٹیپو سلطان کی رواداری ثابت کرنے کیلئے یہی کافی ہے کہ انہوں نے دارالحکومت کا نام سری رنگا پٹنم برقرار رکھا۔ اگر وہ تعصب پسند ہوتے تو شہر کا نام تبدیل کرتے لیکن ایسا نہیں کیا۔ مندروں اور دیگر مذہبی مقامات کیلئے ٹیپو سلطان کے انعام و اکرام کی کئی مثالیں ہیں۔ ٹیپو سلطان آج کے حکمرانوں کی طرح طوطا چشم اور تعصب پسند نہیں تھے۔ جنہیں شہروں اور عمارتوں کے مسلم نام برداشت نہیں ۔ دہلی ، اترپردیش ، مہاراشٹرا اور دیگر شہروں میں مسلم ناموں کو تبدیل کیا گیا لیکن نام بدلنے سے تاریخ مٹ نہیں جاتی۔ تاج محل ، لال قلعہ ، قطب مینار اور چارمینار کا تذکرہ آتے ہی مسلم حکمرانوں کانام زبان پر لانا پڑے گا ۔ عوام کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تاریخی یادگاریں ہندو راجاؤں کی تعمیر کردہ ہیں۔ جب تاریخ کو مٹانا یا تبدیل کرنا کسی کے بس میں نہیں تو بی جے پی نفرت کا راستہ ترک کرے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی اتنی یادگاریں ہیں کہ نام بدلتے بدلتے لوگ تھک جائیں گے لیکن نشانیاں ختم نہیں ہوں گی۔
کرناٹک میں بی جے پی کو شکست کا خوف لاحق ہوچکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی اور امیت شاہ نے انتخابی مہم کی کمان سنبھال لی ہے۔ امیت شاہ کے دورے تو مسلسل جاری ہیں اور نریندر مودی نے 8 روزہ انتخابی مہم کو قطعیت دی ہے جس میں 15 سے زائد ریالیوں اور جلسوں سے خطاب کریں گے۔ نریندر مودی کی انٹری کرناٹک کی انتخابی سیاست میں کیا گل کھلائے گی ابھی واضح نہیں ہوا۔ فی الوقت شکست کے خوف سے بی جے پی قیادت کی نیند حرام ہوچکی ہے ۔ عام طور پر وزیراعظم کے چہرہ پر بی جے پی الیکشن لڑتی رہی ہے۔ ترقی اور اپوزیشن پر کرپشن کے الزامات نریندر مودی کی تقریر کا اہم حصہ ہوتے ہیں لیکن کرناٹک میں بی جے پی خود اپنے جال میں پھنس چکی ہے۔ راہول گاندھی ، پرینکا گاندھی اور ملکارجن کھرگے نے کرناٹک میں چالیس فیصد کمیشن کی بسوا راج بومائی سرکار کو عوام میں بے نقاب کردیا ہے ۔ بی جے پی کرپشن کے مسئلہ کو انتخابی موضوع نہیں بناسکتی ۔ نریندر مودی اپوزیشن پر کرپشن کا الزام عائد کرنے میں احتیاط کریں گے کیونکہ بی جے پی حکومت 40 فیصد کمیشن کے نام پر بدنام ہوچکی ہے۔ کرناٹک میں وزیراعظم کا ترقی کا نعرہ بھی اثر انداز نہیں ہوسکتا ہے۔ راہول اور پرینکا نے جو تیر چلائے ہیں ، وہ نشانہ پر لگ رہے ہیں جس کے نتیجہ میں بی جے پی کے حواس باختہ ہیں۔ کرناٹک کے عوام نے تبدیلی کے حق میں فیصلہ کرلیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کرناٹک میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم کو روکا جائے ۔ جنتا دل سیکولر اگر ووٹ کی تقسیم کے ذریعہ بی جے پی کی درپردہ مدد کرتی ہے تو وہ کانگریس کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ کرناٹک کے مسلم رائے دہندوں اور مسلم رضاکارانہ تنظیموں نے بی جے پی شکست کو یقینی بنانے کیلئے متحدہ رائے دہی کی مہم شروع کی ہے۔ اگر مسلم رائے دہندے دانشمندی کا مظاہرہ کریں تو بی جے پی کو شکست دینا آسان ہوگا۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے بنگلور کا دورہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو رائے دہی کے فیصد میں اضافہ کا مشورہ دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف زبانی بیانات اور مذمت سے فرقہ پرست طاقتوں کو شکست نہیں دی جاسکتی ۔ خوش آئیند بات یہ ہے کہ مسلم سیاسی جماعتوں نے محدود نشستوں پر مقابلہ کا فیصلہ کیا ہے تاکہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کو روکا جاسکے ۔ راہول گاندھی کے خلاف حال ہی میں کی گئی کارروائیاں ہمدردی کی لہر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ لوک سبھا کی رکنیت ختم کرنا اور پھر سرکاری مکان کا تخلیہ ایسے اقدامات ہیں کہ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ملک کیلئے قربانیاں دینے والے خاندان کا یہ حشر ہے تو پھر عام آدمی کا کیا ہوگا۔ جموں و کشمیرکے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے پلواما حملہ کی حقیقت ملک کے سامنے رکھتے ہوئے بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے ۔ راہول گاندھی کے حق میں ہمدردی کی لہر اور ستیہ پال ملک کے انکشافات کا کرناٹک چناؤ پر لازمی اثر دیکھا جائے گا ۔ قومی میڈیا کے ذریعہ ستیہ پال ملک کا بلیک آوٹ کیا جارہا ہے تاکہ حقائق سے عوام ناواقف رہیں۔ توقع کے مطابق ستیہ پال ملک کو سی بی آئی نے نوٹس جاری کردی ہے۔ ہر مخالف آواز کو دبانے کی کوشش عارضی طور پر کامیاب تو ہوسکتی ہے لیکن لانگ رن میں بی جے پی کو نقصان ہوگا۔ سیکولر طاقتوں کے لئے کرناٹک کا چناؤ امتحان کی گھڑی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام کا فیصلہ نفرت کی سیاست کے حق میں رہے گا یا پھر عوام ترقی اور خوشحالی کو ترجیح دیں گے۔ ندا فاضلی نے کیا خوب کہا ہے ؎
حکومتوں کو بدلنا تو کچھ محال نہیں
حکومتیں جو بدلتا ہے وہ مزاج بھی ہو