حکومت اب تو آنکھیں کھولے

   

اب خواب گراں سے جاگ ذرا کہرام مچا ہے دنیا میں
اک رقصِ تباہی ہے ہر سُو ، کاش آنکھیں آپ کی کھل جائیں
حکومت اب تو آنکھیں کھولے
ہندوستان میںنریندر مودی حکومت اور بی جے پی پر اقلیتوں کے خلاف مظالم اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششوں کے الزامات مسلسل عائد ہوتے رہے ہیں۔ مختلف گوشوں سے اور خاص طور پر مسلمانوں کی مختلف تنظیموں اور جماعتوں کی جانب سے یہ الزامات عائد ہوتے رہے ہیں کہ بی جے پی ایک منظم منصوبہ کے تحت اقلیتوں کو حاشیہ پر کردینا چاہتی ہے اور اس کیلئے اس کی محاذی تنظیمیں سرگرم بھی ہوچکی ہیں۔ ان تنظیموں کے ذریعہ نریندر مودی حکومت اور بی جے پی اپنے عزائم اور منصوبوں کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کی اپوزیشن جماعتوں کو بھی یہ پوری طرح سے احساس ہے کہ یہ عزائم بی جے پی کسی بھی قیمت پر پورے کرنا چاہتی ہے اور وہ وقفہ وقفہ سے اس کیلئے کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتی رہتی ہے ۔ اب تازہ ترین اقدام میں نریندرمودی حکومت نے اپنی دوسری معیاد میں ایک بار پھر تین طلاق اور نکاح حلالہ جیسے مسائل کو چھیڑ دیا ہے ۔ مختلف گوشوں سے ہونے والی تنقیدوں اور الزامات کی بی جے پی کی جانب سے تردید کی جاتی رہی ہے لیکن یہ ایک ایسی اٹل حقیقت بن کر ابھر کر سامنے آگئی ہے کہ اب دنیا کے دوسرے ممالک اور ان کے مختلف ادارے بھی اس تعلق سے اظہار خیال کرنے لگے ہیں۔ امریکہ نے دو دن قبل دنیا بھر میںمذہبی آزادی کے تعلق سے اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں ہندوستان کا خاص طور پر تذکرہ کیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کے خلاف ہندوستان میںمنظم انداز میںحملے کئے جا رہے ہیں اور انہیں نشانہ بناتے ہوئے ان میںعدم تحفظ کا احساس اور ڈر و خوف کی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ خود بی جے پی کے کئی قائدین کی جانب سے مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات بھی جاری کئے جاتے ہیں اور خودا پنے کیڈر کو اقلیتوں کے خلاف اکسایا جاتا ہے ۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ امریکہ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں اس بات کا پوری طرح سے خلاصہ کیا گیا ہے کہ کس طرح سے سارے ہندوستان میں ایک طرح سے نراج کی کیفیت پیدا کرنے کی حکمت عملی پر عمل ہو رہا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ نریندر مودی کے اقتدار میں ملک میں فاشسٹ طاقتیں اور فرقہ پرست عناصر بے لگام ہوگئے ہیں۔ وہ کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں۔ کچھ گوشوں سے ملک کے دستور کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ۔ دستور کی نقول کو سر عام نذر آتش کیا جا رہا ہے ۔ دستور کو بدلنے کی بات کی جا رہی ہے ۔ یہ سارا کچھ محض اس لئے ہے کیونکہ دستور میں اقلیتوں کے حقوق کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ ان کی حفاظت کی ذمہ داری کا تعین کیا گیا ہے ۔ حکومت کی ذمہ داریوں کو واضح کیا گیا ہے ۔ یہ کہا گیا ہے کہ اس ملک کا کوئی سرکاری مذہب نہیںہوگا اور ہر مذہب کے ماننے والوں کے اس ملک میںمساوی حقوق ہونگے ۔ جو کوئی اس ملک کے دستور اور قانون پر یقین رکھے گا اس کیلئے مساوی مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوگی ۔ یہی بات فاشسٹ طاقتوں اور فرقہ پرستوںکو ہضم نہیں ہوتی اور اسی وجہ سے دستور ہند کے خلاف بھی بیان بازیاں شروع کردی گئی ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جو عناصر فرقہ پرستانہ لیبل پر کام کرتے ہیں وہ تو اپنی جگہ ہیں ہی لیکن دستور کے نام پر حلف لینے اور جمہوریت کے اعلی ترین ادارہ پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہونے اور حکومت میںو زارت سنبھالنے والے افراد بھی دستورہند میں تبدیلی لانے کی بات کرتے ہیں جو انتہائی افسوسناک اور مذموم کہی جاسکتی ہے ۔
امریکی ادارہ کی جانب سے اب یہ رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کونشانہ بنایا جار ہا ہے ۔ ان پر ہجوم کی جانب سے پرتشدد حملے کئے جا رہے ہیں۔ انہیں مارپیٹ کرکے ہلاک کیا جار ہا ہے ۔ انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ یہ کوششیں مودی حکومت کی پہلی معیاد میںشروع ہوچکی تھیں اور اب ان میںمزید تیزی پیدا کردی گئی ہے ۔ حالانکہ بی جے پی کی جانب سے اس رپورٹ کو مودی کے خلاف جانبداری کا نام دیا جا رہا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کوئی مسلم ملک نہیںہے اور امریکی انتظامیہ کوئی مسلم نواز نہیں بلکہ مودی نواز انتظامیہ ہے ۔ اس پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے حقیقت کو قبول کرنے سے گریز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لیکن مودی حکومت کو اب اس حقیقت کے تعلق سے اپنی آنکھیں کھولنی چاہئے اور اپنی دستوری ذمہ داری کو پورا کرناچاہئے ۔