حکومت کے ممنون و مشکور

   

پنشنرس

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے عوام ذرا سوچو آپ نے ٹی آر ایس کے سربراہ کے چندر شیکھر راؤ اور ان کے پریوار کے لوگوں کو کیا نہیں دیا ۔ کے ٹی راما راؤ ، ہریش راؤ ، کے کویتا کو جو نام ملا ، جو مقام حاصل ہوا ، پہچان بنی ، عزت ، دولت ، شہرت ، حکمرانی ، وزارتیں ، آرزوئیں ، چاہتیں ، سب کچھ تلنگانہ کے عوام سے حاصل ہوئی ہیں ۔ لیکن اس کے عوض تلنگانہ عوام کو کیا حاصل ہوا یہ سوچنے کی فکر نہ رکھنے والے تلنگانہ عوام کو صرف اتنی خوشی ہے کہ تلنگانہ کو علحدہ ریاست کا درجہ ملا ہے ۔ کے سی آر کو غریبوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا ہے کیوں کہ انہوں نے آسرا پنشن کے ذریعہ ریاست کے سینئیر شہریوں کو دی جانے والی پنشن کی رقم میں اضافہ کیا ہے ۔ پنشن سے استفادہ کرنے والے خوش ہیں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے ممنون و مشکور ہیں ۔ ریاست کے سینئر سٹیزنس ، اکیلی و تنہا رہنے والی خواتین اور مختلف معذورین کے لیے پنشن اسکیم ہی ٹی آر ایس کی کامیابی کا راز ہے ۔ ان پنشنرس نے کے سی آر کو ایک پھٹپھٹی موٹر سیکل سے اٹھا کر لاکھوں دلوں کی پسندیدہ شخصیت بنادیا ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ سیاسی ڈان بن گئے ہیں ۔ اس لیے وہ اپنے سامنے کی اپوزیشن کو ٹھوکر میں رکھ رہے ہیں ۔ گذشتہ پانچ سال سے تلنگانہ میں صرف بے وقوف بنانے کی مشق چل رہی ہے ۔ اپوزیشن کو بھی سب سے بڑی احمق پارٹیاں سمجھ کر من مانی کرنے والے چیف منسٹر نے تلنگانہ میونسپل قانون بنایا جس کو دستور کے مغائر قرار دیا گیا ۔ گورنر نے بھی اس قانون کو منظوری دینے سے انکار کردیا ۔ اپوزیشن کو اس قانون میں کئی خامیاں نظر آرہی ہیں ۔ ریاست میں ایک بہترین نظم و نسق دینے کا وعدہ پورا کرتے ہوئے میونسپل قانون بناتے ہوئے کے سی آر نے سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کے اختیارات کو ہی سلب کرلینا چاہا ہے ۔ اپوزیشن پارٹیوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ سابق مرکزی وزیر بنڈارو دتاتریہ نے اس قانون کو یکسر مخالف اپوزیشن اور دستور کے مغائر قرار دیا ۔ ریاست میں تعمیرات کے لیے ہونے والی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کا خاتمہ کرنے کے لیے یہ قانون لایا گیا ہے جب قانون دستور کی اصل روح کے مغائر ہے تو پھر اسے اسمبلی میں منظور کروانے کی اجازت کیوں دی گئی ۔ کے سی آر کے بلدی قانون میں کئی خامیاں پائی جاتی ہیں ۔ کے سی آر بلدی حکام کو کامل اختیارات دے کر تعمیرات کے عمل کو سبوتاج کرنا چاہتے ہیں ۔ ہراسانی کے واقعات میں اضافہ کرنے کا موقع دیا جارہا ہے ۔ بلدی حکام کی چاندی ہی چاندی ہے کیوں کہ تعمیرات کے لیے جتنا قانون سخت ہوگا ۔ بلدی عہدیداروں کی رشوت کی بھوک اتنی زیادہ بڑھے گی ۔ تعمیری امور اور اصولوں کو آسان بنانے کے بجائے کے سی آر نے ایک مجہول میونسپل قانون بنایا ہے جب کہ دیگر سرکاری محکموں جیسے کمرشیل ٹیکس اور عیر قانونی ریت کی منتقلی کے دوران لی جانے والی رشوت پر چشم پوشی اختیار کرلی گئی ہے ۔ حکومت کو بخوبی علم ہے کہ بلدیہ ، ریونیو اور دیگر محکموں میں بڑے پیمانہ پر رشوت کا بازار گرم ہے لیکن یہاں اس طرح کی بدعنوانیوں کا پتہ چلانے میں حکومت ناکام ہے ۔ حکومت نے بلدیہ کا تنہا قانون بناکر صرف مستقبل میں اپوزیشن پارٹیوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ تیار کیا ہے ۔ گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے بلدی قانون میں ترمیمات کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے قانون کو منظوری دینے سے انکار کردیا کیوں کہ یہ قانون دستور کے اصل جذبہ کے مغائر ہے ۔ گورنر نے اس قانون کے ذریعہ کلکٹرس کو دئیے گئے اختیارات پر بھی اعتراض کیا ہے ۔ بلدی اداروں سے منتخب عوامی نمائندوں کو ہٹاتے ہوئے کلکٹرس کو اختیارات دئیے گئے ہیں ۔ اگر یہ لوگ میونسپل نرسریز میں 85 فیصد درختوں اور پودوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوں تو ذمہ دار کیوں ہوگا ۔ بلدیہ کے نئے قانون کو ریاستی اسمبلی کے خصوصی سیشن 18 جولائی کو متعارف کروایا گیا اور دوسرے ہی دن اسے منظور بھی کرلیا گیا ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے جو بلدی نظم و نسق کا بھی قلمدان رکھتے ہیں ۔ اس قانون کو ملک کی دیگر ریاستوں کے لیے ایک قابل تقلید قرار دیا ۔ اس قانون میں ریاستی الیکشن کمیشن (ایس ای سی ) کو آرٹیکل 243k اور 243Z کے تحت مکمل اختیارات دئیے گئے ہیں ۔ حکومت نے بلدی قانون منظور کروانے سے قبل ماہرین کی رائے حاصل نہیں کی ہے اور نہ ہی اس کے بعض دفعات اور حصوں کو تیار کرنے کے لیے ہوم ورک کیا گیا ۔ ٹی آر ایس کو جس مقصد سے قائم کیا گیا تھا ۔ اس مقصد کا گلا گھونٹتے ہوئے من مانی اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ معمولی رقم کے ساتھ بینک اکاونٹ سے قائم ہونے والی ٹی آر ایس اب 255 کروڑ روپئے ڈپازٹ رکھنے والی پارٹی ہوگئی ہے ۔ جس کا ماہانہ بینک سود 1.75 کروڑ روپئے آرہا ہے ۔ یہ تو صرف حساب کتاب کے تحت آنے والی رقم ہے ۔ اصل فنڈس کا کوئی حساب نہیں ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت میں اب ان لوگوں کا حال چڑیا گھر کے شیر کی طرح ہوگا جو اس حکومت سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ۔ شہر کے چڑیا گھر کے شیر کے لیے مرغیاں اور بکرے کا گوشت سربراہ کیا جاتا اور اس کے بھاری بل سرکاری خزانے میں چلے جاتے لیکن مرغیوں اور گوشت کا انتظار کرتے کرتے بے چارہ شیر خود کی بد نصیبی پر کوستا رہتا ہے کیوں کہ شیر کے کام آنے والی مرغیاں اور گوشت چڑیا گھر کے ڈائرکٹر کے گھر پہونچ جاتی ہیں ۔ کیا کہنے جنگل کا بادشاہ بھی سوچتا تو ہوگا کہ اس اندھیر نگری سے تو ہمارا جنگل ہی اچھا کم از کم وہاں اتنی نا انصافی تو نہیں ۔ ویسے شہر کو بھی حکام نے کہیں کا نہ چھوڑا ۔ بلدیہ کے ذریعہ لوٹ مار ، حکمراں طبقہ کے لوگوں نے مچائی اور عام شہریوں کو تعمیراتی خلاف ورزیوں کے نام پر بھاری جرمانے اور انہدامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ بلدیہ کے حکام نے کھایا پیا موج اڑایا ۔ لیکن بدنام ہوا شہر کا ہر دوسرا شخص یہ کہتا پھرے ، شیر یہ کھا گیا ، شیر وہ کھا گیا ۔ اصل صورتحال یہ کہ شیر بے چارے کی اپنی مرغیاں ڈائرکٹر کھا گیا ۔ چڑیا گھر کے ہاتھی کو جلوس کے لیے استعمال کرنے کے لیے لڑتے لڑتے لوگ خود بیمار ہوگئے ۔ چیڑیا گھر کے بیمار ہاتھی کا مقدمہ لڑلڑ کر بیمار ہونے والا یہ ہاتھی بھلا مذہبی جلوس کے لیے کس طرح کام آئے گا ۔ بہر حال ٹی آر ایس حکومت اپنے کارناموں کی بریفنگ دیتے ہوئے عوام کو خوشیوں بھری سوغات لانے کی ہی نوید سنائی ہے شہر کو محفوظ پینے کے پانی کی سربراہی کے نام پر نقلی منرل واٹر اور جگہ جگہ کمرشیل بورویل قائم کرنے کی اجازت دے کر خانگی تاجروں کی چاندی بنادی ہے ۔۔
kbaig92@gmail.com