پچھلے ہفتہ تلنگانہ میں ایک 26سالہ حیوانات کی ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت ریزی اور قتل معاملے میں گرفتار چاروں ملزمین کی انکاونٹر میں ہلاکت کے ایک روز بعد چیف جسٹس آف انڈیا یہ بیان سامنے آیاہے۔
نئی دہلی۔چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بابڈی نے ہفتہ کے روز کہاکہ یہ مذکورہ عدالتی نظام کو مجرمانہ معاملات کو نمٹنے میں نرمی کے متعلق رویہ کو تسلیم کرنا چاہئے اور یہ کہ عدالیہ کو اس کے متعلق پیش آنے والی تبدیلیاں اور تاثرات سے بھی اسکو واقف رہنا چاہئے۔
پی ٹی ائی کے مطابق جسٹس بابڈی نے راجستھان ہائی کورٹ کی ایک تقریب میں کہاکہ ”ملک میں پیش ائے حالیہ واقعہ نے قدیم بحث کو نئے انداز میں دوبارہ شروع کردیاہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عدالتی نظام کو مجرمانہ معاملات کو نمٹنے میں نرمی کے متعلق رویہ کو تسلیم کرنا چاہئے اور یہ کہ عدالیہ کو اس کے متعلق پیش آنے والی تبدیلیاں اور تاثرات سے بھی اسکو واقف رہنا چاہئے“۔
ہندوستان کے بڑے پیمانے پر عدالتوں میں مقدمات کے زیر التوا رہنے کے پیش نظر جسٹس بانڈے نے کہاکہ عدالتوں کو چاہئے کہ وہ انصاف کی لوگوں تک رسائی کے لئے راستوں کو مستحکم کرنا اور تنازعات کے عاجلانہ اور قابل اطمینان حل کے لئے نئے ذرائع کرنا چاہئے۔
انہوں نے کہاکہ ”انصاف کبھی بھی فوری نہیں ہونا چاہئے۔انصاف کبھی بھی انتقام کی شکل اختیار نہیں کرے گا۔ میرا ماننا ہے کہ اگر یہ انتقام بن گیاتو اس کا شکل وصورت بدل جائے گی۔
عدالتوں میں درستگی کے اقدامات کی ضرورت ہے‘ مگر اس کی تشہیر کی جانے چاہئے یانہیں چاہئے یہ بحث کا موضوع ہے“۔
انہوں نے قانونی چارہ جوئی سے قبل ثالثی کو بھی لازمی قراردینے کی وکالت کی جس کی وجہہ سے قانونی چارہ جوئی کو ایک ساتھ نظر انداز کرنے میں مدد ملے گی۔
جسٹس بابڈے جنھوں نے پچھلے ماہ چیف جسٹس آف انڈیا کی حیثیت سے جائزہ لیاہے نے پچھلے سال چار سب سے سینئر سپریم کورٹ کے ججوں کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس کاحوالہ دیتے ہوئے اس کو ”ایک خود اصلاحی اقدام“ قراردیا۔
جسٹس جے چلمیشوار‘ رنجن گوگوئی‘ ایم بی لوکر‘ اور کروین جوزف نے 12جنوری 2018کے روز ایک پریس کانفرنس منعقد کرتے ہوئے کہاتھا کہ عدالت عظمی کے حالات”ترتیب میں نہیں ہیں“ اور کئی ”مطلوبہ سے کم“ چیزیں پیش آرہی ہیں۔
بعدازاں گوگوئی نے چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کے جانشین بنے