خراب معیشت بہری اور ناسمجھ حکومت

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر فینانس)

ملک میں پھر سے اس بات پر بحث چھڑگئی ہے کہ آیا معیشت میں بہتری آئی ہے جبکہ حکومت ایسا لگتا ہے کہ معاشی حالت پر کوئی بحث و مباحث کرنا نہیں چاہتی۔ وہ جان بوجھ کر اس طرح کے مباحث سے دور ہورہی ہے یا ہوگئی ہے۔ اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ ملک میں آیا معیشت بہتر ہورہی ہے؟ اس میں سدھار پیدا ہورہا ہے اور کیا ہم دو ہندسی معاشی نمو کی جانب رواں دواں ہیں؟ سی ایس او نے سال 2021-22ء کے دوسرے سہ ماہی (جولائی تا ششم) کیلئے معاشی نمو کا جو تخمینہ لگایا ہے، اس تخمینہ نے حکومت کیلئے چند خوشیاں لائی ہیں۔ موجودہ حالات میں دوسرے سہ ماہی میں 8.4% قومی مجموعی پیداوار کو طنز و طعنوں کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ہے۔یہاں تک کہ گزشتہ مالی سال کے دوسرے سہ ماہی میں اگر وہ 7.4% جتنی کم ہی کیوں نہ ہو یا پھر مالی سال 2021-22ء پہلے سہ ماہی میں یہ 20.1% سے بھی کم ہوجائے تب بھی معیشت سے متعلق جو امکانی اعداد و شمار کا جہاں تک تعلق ہے۔ ان اعداد و شمار نے حکومت کے چہرہ پر مسکراہٹ لائی ہے یعنی اس نے راحت کی سانس لی ہے، اسے اقتصادی زبان میں High Frequency Indicators کہا جاتا ہے جیسے ٹیکس وصولی (محاصل کا جمع کرنا) یو پی آئی والیوم، ای ویزیلز (والیوم) ریلوے فریٹ ٹریفک اور برقی کا استعمال وغیرہ یہ صرف اعداد و شمار ہیں عوام نہیں اور یقینا جو لوگ غیررسمی شعبہ پر منحصر ہیں یا جو لوگ غیررسمی شعبہ پر انحصار نہیں کرتے۔ اس بارے میں ہمارے یہاں کوئی ڈیٹا نہیں یا ان لوگوں کا بھی ڈیٹا ہمارے پاس نہیں جو معاشی اہرام میں نچلی سطح پر ہیں۔
قبل از وقت جشن
یہ سوچنے کی بات ہے کہ جب وزارت خزانہ کے اعلیٰ عہدیدار خوش ہورہے تھے، اسی وقت دوسرے وزراء اور حکمراں جماعت کے ارکان پارلیمنٹ خاموش تھے جبکہ عوام بالکل جشن نہیں منا رہے تھے۔ CSO کے تخمینے سے متاثر ہونے والی سرخیاں ایک یا دو دن میں پس منظر سے غائب ہوگئیں اور جس چیز نے اس جگہ کو دوبارہ پُر کیا، وہ پٹرول، ڈیزل، پکوان گیاس ٹماٹر، پیاز کی قیمتی اور بازاروں میں صارفین کی کمی تھی۔
سی ایس او تخمینوں نے اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا کہ لوگ زیادہ یا کافی مقدار میں خریداری نہیں کررہے ہیں جہاں تک نجی کھپت یا استعمال کا سوال ہے یہ ترقی اور نمو کے چار اہم انجنوں میں سے ایک اہم انجن ہے۔ اس کا قومی مجموعی پیداوار کا تقریباً 55% حصہ ہے۔ سال 2019-20ء اور 2018-19ء میں آئے وبائی امراض سے پہلے کے برسوں اور کورونا کی عالمی وباء سے متاثرہ برس 2020-21ء اور اس وائرس کی گرفت سے باہر آنے کے نام نہاد سال 2021-22ء میں نجی استعمال کے نمبرات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ سال 2018-19ء کے پہلے سہ ماہی میں نجی کھیت 19,07,366 کروڑ روپئے اور دوسرے سہ ماہی میں 19,29,859 کروڑ روپئے رہی۔ اسی طرح سال 2019-20ء میں نجی کھپت 20,24,421 کروڑ روپئے اور دوسرے سہ ماہی میں 20,19,783 کروڑ روپئے رہی۔ سال 2020-21ء کے پہلے سہ ماہی میں 14,94,524 اور دوسرے سہ ماہی میں یہ 17,93,863 کروڑ روپئے درج کی گئی۔ دوسری طرف سال 2021-22ء میں یہ کھپت پہلے سہ ماہی میں 17,83,611 اور دوسرے سہ ماہی میں 19,48,346 ریکارڈ کی گئی۔ مذکورہ اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو آپ کو بھی اندازہ ہوگا کہ جاریہ سال کے پہلے اور دوسرے سہ ماہی میں نجی کھپت سال 2019-20ء کے پہلے اور دوسرے سہ ماہی کی نجی کھپت کے مقابلے ہنوز کم ہے۔ سب سے بری بات یہ ہے کہ ششماہی کی کُل کھپت 2018-19ء کی ششماہی کی جملہ کھپت سے کم ہے۔ مزید یہ کہ سال 2021-22ء کیلئے جملہ قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) 68,11,471 کروڑ روپئے ہے حالانکہ یہی قومی مجموعی پیداوار سال 2019-20ء میں 71,28,238 کروڑ روپئے تھی۔
کورونا وباء سے نام نہاد بحالی کے سال میں لوگ ہر چیز کم کیوں استعمال کررہے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ آبادی کے ایک بڑے حصہ پر اس کا اثر ہوا۔
٭ فی کس اوسط آمدنی کے لحاظ سے بھی لوگ غریب ہیں۔
٭ لوگوں کی آمدنی بھی کم ہے یا کم ہوگئی ہے۔
٭ لوگ اپنی ملازمتوں سے محروم ہوئے۔
٭ لوگوں نے اپنے کاروبار بند کر رکھے ہیں۔
٭ آمدنی کم ہونے کے باعث خرچ بھی کم کرنے لگے ہیں۔
٭ لوگ اشیاء کی بڑھتی قیمتوں سے پریشان ہیں۔ خاص طور پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ سے پریشان ہیں۔
٭ لوگ زیادہ بچت کرنے لگے ہیں۔
میرے خیال میں سطور بالا میں دی گئی تمام وجوہات صحیح ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے لوگوں کی آمدنی کم ہے۔ بہت سے لوگوں کی ملازمتیں ختم ہوچکی ہیں۔ بہت سے لوگوں کی محاصل یا ٹیکسوں (فیول پر محاصل جی ایس ٹی کی شرح) کی وجہ سے آمدنی کم ہوئی ہے اور بہت سارے کاروبار بند ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک امکان ہے کہ ایسے بہت لوگ ہیں جو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے خوف سے زیادہ سے زیادہ بچت کرنے میں مصروف ہیں۔
میں نے کئی خاندانوں کے ساتھ بات چیت میں یہ پایا ہے کہ لوگوں میں اصل خوف یہ ہے کہ اگر میں یا میرے خاندان کا کوئی فرد کورونا وائرس سے متاثر ہوجائے تو کیا ہوگا، یہ ایک حقیقی خوف ہے کیونکہ کورونا متاثرین اور کورونا اموات سے متعلق ہر روز جو اعداد و شمار شائع ہورہے ہیں۔ ان کے مطابق ہندوستان میں اموات کی تعداد 5 لاکھ کے قریب ہوگئی ہے۔ متاثرین کروڑوں میں پہنچ گئے ہیں۔ ویکسین سے متعلق جو اعداد و شمار آئے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ صرف 50.8% آبادی نے ویکسین کی دونوں خوراکیں لی ہے۔ 85.1% آبادی نے ایک ٹیکہ لیا ہے اور تقریباً 15 کروڑ بالغ مرد و خواتین کو ابھی تک ٹیکے نہیں لگائے گئے ہیں۔ بچوں کو بھی ٹیکے نہیں لگائے گئے۔ شادیوں کی پرتعیش تقاریب، تعطیلات گزارنے کیلئے طیاروں میں مختلف مقامات جانے والوں، باہر کھانے والوں، بلیک فرائی ڈے کی خریداری کا اہتمام کرنے والوں کی تعداد صرف بڑے شہروں اور ٹائر2 ٹاؤنس تک محدود ہوکر رہ گئی۔ دیہاتوں میں فکرمندی کا ماحول ہے۔ وہاں خوف کا بسیرا ہے یا نہیں تو کم از کم فکرمندی کا ڈیرہ ہے۔
موجودہ حالات میں مودی حکومت طلب و رسد کے معاملے میں درکار ضروری اقدامات نہیں کررہی ہے۔ مودی حکومت نے معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے اور اسے بحال کرنے کا جو نسخہ تجویز کیا ہے وہ غلط ہے۔ معیشت کی بحالی کیلئے جو طریقہ اختیار کرنا تھا، مودی حکومت اس سے کنارہ کشی اختیار کررہی ہے اور کبھی کبھار تو اس کا مضحکہ بھی اُڑایا ہے۔ خاص طور پر آبادی کے غریب حصہ میں طلب کو فروغ دینے کے معاملے میں وہ کوتاہی سے کام لے رہی ہے۔ راقم نے فیول اور دوسری اشیاء پر محاصل میں کمی کیلئے مسلسل بحث کی ہے۔ غریبوں کو رقم کی راست منتقلی اور ان کی مالی امداد کیلئے بند کئے گئے مائیکرو اور چھوٹے موٹے کاروباری اداروں کو دوبارہ شروع کرنے اور ورکروں کو دوبارہ خدمات حاصل کرنے کے قابل بنانے کیلئے اقدامات کرنے کی درخواست کی ہے لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معیشت کے اہرام کے بالائی حصہ کے ایک فیصد لوگ بہت ہی زیادہ دولت مند بن گئے، اوپری حصہ کے 10% دولت مند بنے اور معیشت کے اہرام کے نچلی سطح کے 50% لوگ غریب سے غریب تر بن گئے ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت CSO اعداد سے خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتی ہے اور اس کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت نہ صرف بہری ہے بلکہ حقیقت سمجھنے سے عاری بھی ہے۔