خطا میری ہے دھوکہ کھا رہا ہوں

   

مودی مائینڈ گیم … جیت پر تجسس برقرار
راہول گاندھی… سیکولر فوج کے سپہ سالار

رشیدالدین
’’مائینڈ گیم‘‘ کسی بھی شعبہ میں اپنی بالادستی ثابت کرنے کی کوشش کو مائینڈ گیم کہا جاتا ہے ۔ حقیقت بھلے ہی کچھ ہو لیکن مائینڈ گیم کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ماحول ان کے حق میں سازگار ہے۔ سیاست اور تجارت میں مقابل کو ذہنی طور پر پست کرنے میں مائینڈ گیم اہم رول ادا کرتا ہے ۔ یہ دراصل مہم کا ایک ذریعہ ہے۔ انتخابات میں سیاسی پارٹیاں مائینڈ گیم کے ذریعہ ایک طرف رائے دہندوں تو دوسری طرف مخالفین پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ مائینڈ گیم ہی ناکامی کو کامیابی میں بدل سکتا ہے ۔ یہ دراصل ذہن و دماغ میں قابو میں کرنے کا وسیلہ ہے۔ سیاست اور تجارت کے شعبہ میں اسے کامیابی کی کلید سمجھا جاتا ہے ۔ عوام کے ذہنوں پر یہ نقش کردیا جاتا ہے کہ فلاں پارٹی کو برتری حاصل ہے اور فلاں کمپنی سب سے زیادہ منافع بخش ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلجنس یعنی مصنوعی ذہانت کے دور میں انتخابی مہم میں مائینڈ گیم ہی مخالفین کے حوصلوں کو پست کرسکتا ہے ۔ آسان زبان میں کہیں تو کمزوری کو طاقت اور ناکامی کو کامیابی کے طور پر پیش کرنے کا دوسرا نام مائینڈ گیم ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی ، بی جے پی اور سنگھ پریوار ملک بھر میں عوام کے ساتھ مائینڈ گیم کھیل رہے ہیں۔ زمینی سطح پر بی جے پی اور نریندر مودی کے حق میں سب کچھ ٹھیک نہیں لیکن مائینڈ گیم کے ذریعہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مودی کا کوئی مقابل نہیں ہے اور تیسری مرتبہ وزیراعظم کے عہدہ پر مودی کا فائز ہونا طئے ہے۔ سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ تشہیر کے تمام وسائل اور ذرائع کا جس بے دردی سے استعمال کیا جارہا ہے ، اس کی شائد ہی پہلے ہی کوئی مثال ملتی ہو۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے الیکشن میں میڈیا کے استعمال کا سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کو شائد خیال بھی نہیں آیا ہوگا۔ مودی حکومت نے تمام حدود سے تجاوز کرتے ہوئے حکومت کی ناکامیوں کو شاندار کامیابی کے طور پر پروجکٹ کیا ہے۔ جہاں تک ہندوستانی عوام کی نفسیات کا تعلق ہے ، لوگ آسانی سے کسی بھی مہم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حکومت کی ناکامیوں سے مسائل اور مشکلات کو بھلاکر عوام اچھائی کی امید کے ساتھ خود کو پروپگنڈہ سے وابستہ کرلیتے ہیں۔ ہندوستانی عوام طبیعتاً اور فطرتاً سادہ لوح اور بھولے واقع ہوئے ہیں اور بی جے پی اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق انسان بنیادی طور پر آشاوادی یعنی پرامید ہوتا ہے اور اچھائی اور بھلائی کی آس میں ماضی کے دکھ درد کو بھلا دیتا ہے۔ نفسیاتی گیم کا مقصد مودی حکومت کی 10 سالہ ناکامیوں کو چھپانا ہے۔ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی ، مہنگائی اور بیروزگاری نے غریب اور متوسط طبقات کا جینا دوبھر کردیا ہے لیکن الیکشن سے عین قبل نریندر مودی کو مسیحا کے طور پر پیش کیا جارہا ہے تاکہ تیسری مرتبہ کامیابی میں رکاوٹ نہ ہو۔ ملک کی 75 سالہ تاریخ میں شائد ہی کسی حکومت میں عوام اس قدر پریشان نہیں ہوئے جتنا مودی راج میں ہوئے ہیں۔ پھر بھی مودی کی گیارنٹی کے نام پر ہتھیلی میں جنت دکھائی جارہی ہے۔ نوٹ بندی سے قطاروں میں کئی اموات واقع ہوئیں۔ چھوٹے اور متوسط تاجر آج تک بھی بحران سے ابھر نہیں پائے۔ پٹرول اور ڈیزل کی اضافی قیمتوں نے اشیائے ضروریہ کو مہنگا کردیا ہے۔ ہر سال دو کروڑ روزگار کا وعدہ کہاں گیا ؟ 10 سال میں 20 کروڑ افراد کو روزگار ملنا تھا ، مہنگائی نے غریبوں کو فاقہ کشی کا شکار بنادیا ہے۔ معاشی پریشانیوں سے خودکشی کے واقعات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ دوسری طرف فرقہ وارانہ جنون کی سیاست نے مسلمانوں ، دلتوں اور عیسائیوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستیں آر ایس ایس کی فیکٹریوں میں تبدیل ہوگئیں۔ اقلیتیں اور دلت طبقات عدم تحفظ کا شکار ہیں لیکن گودی میڈیا ہندوستان کو جنت نشاں کے طورپر پیش کر رہا ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرہ میں سب کا وشواس اور سب کا پریاس کا اضافہ کردیا گیا لیکن حکومت کے نزدیک سب کا مطلب صرف اکثریتی طبقہ ہے ۔ دوسروں کو دوسرے درجہ کے شہری کے طور پر حکومت کے احسان اور مہربانی کے تحت زندگی بسر کرنی ہے۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کی مسلمان اور دیگر اقلیتوں کے علاوہ دلت اپنی مرضی کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ عبادت کے لئے حکومت کی اجازت ضروری ہے۔ پرسنل لا پر عمل کرنے کی اجازت نہیں اور ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے ذریعہ مذہبی شناخت اور تشخص ختم کرنے کی تیاریاں ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں کا آخری نتیجہ ہندو راشٹر کی شکل میں ظاہر ہوگا۔ گزشتہ 10 برسوں میں مائینڈ گیم کے ذریعہ عوام کو مظالم سہنے کا عادی بنادیا گیا اور احتجاج اور مزاحمت کا تصور ختم ہوچکا ہے ۔ یہی دراصل بی جے پی اور سنگھ پریوار کی کامیابی ہے۔
لوک سبھا چناؤ کا بگل کسی بھی وقت بج سکتا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ مودی حکومت کا کابینی اجلاس 3 مارچ کو طلب کیا گیا ہے جو حکومت کی دوسری میعاد کا آخری اجلاس ہوسکتا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ الیکشن کمیشن مارچ کے دوسرے ہفتہ میں الیکشن شیڈول جاری کردے گا۔ بی جے پی اور اپوزیشن انڈیا الائنس نے اپنے اپنے طور پر انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے ۔ بی جے پی 400 پار کا نعرہ لگا رہی ہے اور رائے دہی کو مذہبی رنگ دینے کے لئے کشمیر سے 370 کی برخواستگی کا حوالہ دیتے ہوئے بی جے پی کو 370 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کیا جارہا ہے ۔ نریندر مودی نے ملک بھر میں سرکاری اسکیمات اور مختلف پراجکٹس کے افتتاح اور سنگ بنیاد کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا ہے تاکہ عوام میں یہ تاثر دیا جائے کہ حکومت ترقی کے عہد کی پابند ہے۔ اترپردیش اور بہار پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے کیونکہ دونوں ریاستوں میں لوک سبھا نشستوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ بی جے پی نے اپوزیشن انڈیا الائنس کو کمزور کرنے کے لئے کئی حلیف پارٹیوں کو کانگریس سے ہٹاکر بی جے پی سے ہاتھ ملانے پر مجبور کردیا ہے ۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی کو دراصل تیسری مرتبہ کامیابی کے بارے میں شبہات ہیں، لہذا اپوزیشن کو کمزور کرنے کی سازش کی جارہی ہے ۔ لوک سبھا چناؤ در حقیقت سیکولرازم اور فرقہ پرستی کے درمیان مقابلہ رہے گا۔ کانگریس قائد راہول گاندھی فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف جدوجہد کی قیادت کر رہے ہیں۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سنگھ پریوار اور بی جے پی کے خلاف راہول گاندھی تنہا محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ گودی میڈیا اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ راہول گاندھی کے خلاف مہم کے باوجود انہوں نے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا ہے ۔ بھارت جوڑو یاترا کے پہلے مرحلہ میں عوامی تائید سے بوکھلاہٹ کا شکار بی جے پی نے دوسرے مرحلہ کی یاترا کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بلیک آؤٹ کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ راہول گاندھی عوامی تائید سے محروم ہیں۔ درحقیقت دوسرے مرحلہ میں راہول گاندھی کو پہلے مرحلہ سے زیادہ تائید حاصل ہورہی ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ اپوزیشن انڈیا الائنس میں شامل جماعتوں کو الیکشن میں کامیابی کی فکر ہے لیکن وہ مودی کے خلاف محاذ آرائی اور میدان میں اترنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بائیں بازو جماعتیں قومی موقف سے محروم ہوچکی ہیں اور وہ صرف چند ریاستوں تک محدود ہیں۔ انڈیا الائنس میں زیادہ تر پارٹیوں کا تعلق مختلف ریاستوں سے ہے اور بی جے پی کو علاقائی پارٹیوں سے خطرہ لاحق ہے۔ انڈیا الائنس میں شمولیت نریندر مودی کو شکست کے لئے کافی نہیں بلکہ ہر پارٹی اور اس کے قائد کو راہول گاندھی کی طرح عوام کے درمیان نکلنا ہوگا ۔ سابق میں جئے پرکاش نارائن کی جدوجہد کے نتیجہ میں اندرا گاندھی اقتدار سے محروم ہوئی تھیں۔ راہول گاندھی جس انداز میں عوام کے درمیان مسائل کو پیش کر رہے ہیں اور پرینکا گاندھی پارٹی کی انتخابی مہم کی کمان سنبھال چکی ہیں ، ایسے میں مبصرین کا خیال ہے کہ دونوں کی محنت ضرور رنگ لائے گی۔ گودی میڈیا کے جانبدارانہ رویہ سے عوام واقف ہوچکے ہیں اور وہ میڈیا کے کسی بھی پروپگنڈہ پر آسانی سے بھروسہ کرنے تیار نہیں ہے۔ کانگریس کی ملک کیلئے قربانیوں کی طویل تاریخ ہے۔ جدوجہد آزادی سے لے کر ہندوستان کو نیوکلیئر طاقت بنانا کانگریس کا کارنامہ ہے ۔ گاندھی خاندان نے اپنے دو سپوتوں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کو ملک کی سالمیت کے لئے قربان کیا۔ عوام لوک سبھا چناؤ میں کانگریس کی قربانیوں کو فراموش نہیں کریں گے۔ موجودہ سیاسی ماحول میں عوام نوجوان قیادتوں کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ بی جے پی کے پاس موجودہ ضعیف قیادتوں کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ندیم شاد نے عوام کی ترجمانی کچھ اس طرح کی ہے ؎
وہ دھوکہ دے تو اس کی کیا خطا ہے
خطا میری ہے دھوکہ کھا رہا ہوں