خطرناک وبائیں اور کووڈ ۔ 19

   

سیاست فیچر
ہر دن ہر گرجا گھر میں اس قدر کثیر تعداد میں میتیں آرہی تھیں کہ ان نعشوں کی تدفین کے لئے قبرستانوں میں جگہ باقی نہیں رہی۔ نتیجہ میں نعشوں کو وہاں ایک کے اوپر ایک رکھتے ہوئے ایسے جمع کردیا گیا جیسے کسی سامان کو سجا کر رکھا جاتا ہے۔ یہ حالیہ عرصہ کے دوران برازیل کے کورونا وائرس سے متاثرہ شہر مناوس سے روانہ کردہ رپورٹ نہیں ہے جہاں خندقوں میں تابوتوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور تدفین کے منتظر ہیں۔ ہاں … ! یہ برازیل کے مناوس شہر میں کورونا کی تباہی سے متعلق رپورٹ کا حصہ نہیں ہے بلکہ 650 سال قبل اطالوی مصنف گلووانی بوکاسیو کے ادبی شاہکار
The Decameron
کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس میں انہوں نے ’’سیاہ موت‘‘
(Black death)
کا انتہائی متاثر کن انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ اس کے باوجود آجکل کورونا وائرس یا کووڈ ۔ 19 نے ساری دنیا میں جو تباہی مچائی ہے۔ وہ بے نظیر ہے۔ ماضی میں اس کی مثالیں نہیں ملتی دراصل یہ دوہزار سال قبل جو دلوں کو دہلادینے والے مناظر دیکھے گئے تھے اس کا احیاء دکھائی دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ عالمی وباوں کی تاریخ پر لکھی گئیں چار کتابوں کو کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اگر ان چار کتابوں کا بغور جائزہ لیا جائے یا مطالعہ کیا جائے تو کورونا وائرس کی موجودہ وباء کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ماضی کی وباوں اور کووڈ۔ 19 کی وباء میں سب سے بڑا فرق یہ ہیکہ موجودہ وباء کے بارے میں بہت پہلے ہی پیشن گوئی کردی گئی تھی۔ اس سلسلہ میں ہم ولیم ایچ میک نیل کی 1977 میں لکھی گئی کتاب
Plague and peoples
کا حوالہ دے سکتے ہیں جس میں اس بیماری کو وسیع تر عالم حیاتیات کا حصہ بتایا گیا۔ اس کی کتاب کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے انسانی زندگویں کو اس بیماری کے جراثیم یا
Organism
کے
Microparasitism
اور بڑی جسامت والے شکاریوں کے درمیان خطرناک توازن میں پھنسے دیکھتا ہے جن میں انسان بھی شامل ہیں۔ جہاں تک سبزی خوروں کا سوال ہے وہ خود بعض وقت بڑے شکاریوں یعنی بڑے حیوانوں کا شکار بن جاتے ہیں لیکن اکثر یہ سبزی خور سادہ آنکھ سے دکھائی نہ دینے والے (نظرنہ آنے والے)
Microbes
کا شکار بن جاتے ہیں۔ یہ ایسے مائیکروبس ہوتے ہیں جو انسانی خلیئے اور بافتوں کو چٹ کرجاتے ہیں۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو کووڈ۔ 19 مائیکرو پیراسائیٹس کے ایک طویل سلسلہ کا تازہ ترین وائرس ہے جو انسان کے ساتھ ہلاکت خیز معرکہ میں مصروف ہے۔ ویسے بھی حضرت انسان یہاں ایک چیف مائیکرو پیراسائیٹ کی حیثیت سے مصروف ہیں۔ اگر وائرس اور امراض کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یونانی مورخ تھسی ڈائیٹس نے یونان کے
431BCE
کے دوران دارالحکومت ایتھینس میں پلیگ کی جو وباء پھیلی تھی اس کی جو منظر کشی کی ہے اس کے بارے میں جو معلومات فراہم کئے گئے ان معلومات کے مطابق اس وقت نعشوں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔ اسی طرح بوکاسیو میں بڑے پیمانے پر اچانک جو ہلاکتیں ہوئی ہیں وہ بھی ایک معمہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایتھینس میں جو وباء پھیلی تھی وہ اسمال پاکس اور بابونک پلیگ طاعون دملی سے پھیلنے والی بلیک ڈتھ کا نتیجہ تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مائیکرو پیراسائیٹ نے ہمیشہ انسانوں پر حملہ کیا اور وبائیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک بڑی تیزی سے پھیل گئیں۔ مثال کے طور پر وبائی اثرات سے متاثر مقامات کے تاجر تجارت کے لئے دور دراز یا طویل مسافیت طے کرکے دوسرے مقامات جایا کرتے تب وبائی اثرات بھی ان کے ساتھ دوسرے مقامات میں منتقل ہو جاتے۔ اس سلسلہ میں ہم یوروپ کو متاثر کرنے والے دو پلیگ وباوں کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ پہلی وباء یوروپ میں چھٹویں صدی میں پھیلی اور اسے بازنطینی حکمراں کے نام سے جسٹینین پلیگ کا نام دیا گیا۔ یہ پلیگ کی وباء اس قدر خطرناک تھی کہ صرف چار مہینوں میں قسطنطنیہ کی 40 فیصد آبادی کو اپنا شکار بنایا۔ قسطنطنیہ جسے تاریخی شہر کی 40 فیصد آبادی کی موت کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ چودھویں صدی کے وسط میں وباوں کی ایک دوسری بڑی لہر نے یوروپ کو متاثر کیا۔ بابونک پلیگ دراصل چوہے سے پھیلنے والے جراثیم سے پھیلا اور یہ تاجروں کے قافلوں اور تجارتی جہازوں کی آمد کے نتیجہ میں سارے علاقہ کو لپیٹ میں لے لیا۔ مائیکنین اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب اس بیماری نے ہلاکت خیزی اختیار کرلی۔ اس بیماری میں لوگ تنفسی عارضے کا شکار ہوئے۔ یہاں تک کہ یہ وائرس چھینکنے یا کھانسنے سے جن ذرات کا اخراج ہوتا ہے ان کی منتقلی سے پھیل گیا۔ بابونک پلیگ سے 1346 اور 1353 کے درمیان تقریباً 60 ملین لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ صرف 1894 میں ہی بلیک ڈیتھ کے لئے ذمہ دار بیکٹیریا کی نشاندہی کی گئی۔ واضح رہے کہ اس کے بعد 1918 میں اسپینش فلو کی وباء پھوٹ پڑی۔ اس وقت پہلی جنگ عظیم کا زور تھا۔
Gina Kolata
کی 1999 میں کتاب میں جو ان وباوں کے بارے میں لکھی گئی تھی جس میں 20 اور 100 ملین کے درمیان لوگ ساری دنیا میں موت کی آغوش میں پہنچ گئے تھے۔ گریٹ انفلوئنزا کی وباء 1918 کی ایک کہانی اور وائرس کی تلاش نامی کتاب میں اس قسم کی بیماری پھیلانے والے وائرس کی الاسکا اور ناروے کے منجمد قبرستانوں سے بازیافت کی گئی۔ جس طرح آج کووڈ ۔ 19 پر قابو پانے کے لئے ایک جادوئی علاج یا ٹیکہ کے لوگ منتظر ہیں اسی طرح اس وقت بھی گریٹ انفلوئنزا سے بچاو کے لئے لوگ کامیاب علاج دریافت کئے جانے کے بے چینی سے منتظر تھے۔ جہاں تک اسپینش فلو کا باعث بننے والے وائرس کا سوال ہے آخر یہ وائرس کہاں سے آیا؟ اس کا ماخذ کیا ہے اس بارے میں دنیا اب تک جواب دینے سے قاصر ہے یعنی یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو اب تک حل نہیں ہوسکا۔ اگر حالیہ برسوں کے دوران مختلف وائرس کے منظر عام پر آنے اور لوگوں کو متاثر کرنے کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ماہر وبائیات کینیڈی شاٹ ریچ کا جو نظریہ ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ معتبر ہے۔ خاص طور پر 1957 کے ایشین فلو، 2002 کے سارس دفلو اور اب کووڈ ۔ 19 وائرس کی تازہ ترین مثالوں کی روشنی میں کینیڈی شاٹ ریچ کا نظریہ درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ تمام چین میں پیدا ہوئے ہیں۔ انفلوئنزا کی وبائیں ایسا لگتا ہے کہ ہمیشہ ایشیاء اور خاص طور پر جنوبی چین سے شروع ہوئی ہیں۔

جہاں چاول کی کاشت، بطخ اور خنزیر کی افزائش کا نظام پایا جاتا ہے۔ کینیڈی برڈفلو کے خنزیروں سے انسانوں میں منتقل ہونے کا بار بار حوالہ بھی دیتے ہیں۔ یہ بھی مفروضہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران تمام اتحادیوں کے لئے خندقیں کھودنے میں مصروف چینی مزدوروں نے ہوسکتا ہے کہ یہ فلو اپنے ساتھ 1918 میں اس وباء کے پھوٹ پڑنے سے پہلے منتقل کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلیک ڈیتھ کے اثرات طویل مدت تک قائم رہے۔ اس سلسلہ میں رابرٹ کواٹ فرائیڈ اپنی کتاب میں بلیک ڈیتھ کے بارے میں کچھ تفصیلات پیش کرتے ہیں۔ جہاں تک کورنٹائن کا سوال ہے درصل بلیک ڈیتھ نے یہ نئی اصطلاح یا لعنت متعارف کروائی۔ کورنٹائن دراصل 40 کے لئے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ اس وقت وائرس سے متاثر ہونے والے مسافرین کو لیجانے والی کشتیوں کو گودی سے دور رکھا جاتا تھا۔