خلافت عثمانیہ کے آخری حکمراں

   

سلطان عبدالحمید ثانی
محمد مہر علی خاں حسنی حسینی قادری گیلانی افتخاری نقشبندی
سلطان عبدالحمید ثانی (جنہوں نے 31 اگست 1876ء تا 27 اپریل 1909ء تک خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالی (ان کی پیدائش 21 ستمبر 1842ء کو ہوئی)۔ وہ خلافت عثمانیہ کے 34 ویں سلطان تھے۔ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی خلافت عثمانیہ کے زوال کے آغاز کا مشاہدہ کیا۔ اس وقت خاص طور پر خلافت کے دشمن بڑے پیمانے پر متحد ہوچکے تھے اور وہ کسی بھی طرح مسلمانوں میں سلسلہ خلافت کو ختم کرنے کے خواہاں تھے چونکہ خلافت عثمانیہ کے زوال کا آغاز ہوچکا تھا۔ ایسے میں خلیفہ عبدالحمید کو بلقان کی بغاوت کا سامنا رہا۔ روس کے ساتھ ایک ناکام جنگ بھی لڑی ہاں 1897ء میں یونان کے ساتھ جنگ میں کامیابی حاصل کی۔ خلیفہ عبدالحمید نے ہی 1876ء میں پہلے عثمانی آئین کا اعلان کیا لیکن 1878ء میں پارلیمنٹ سے اختلاف رائے کا حوالہ دیتے ہوئے اس آئین اور پارلیمنٹ دونوں کو معطل کردیا۔ سلطان عبدالحمید ثانی نے 75 برس کی عمر پائی اور 10 فروری بروز چہارشنبہ 1918ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ اس طرح ان کے سانحہ ارتحال کو 103 سال ہوچکے ہیں۔ مورخین کے مطابق 33 برسوں تک انہوں نے ترکی پر پوری مضبوطی کے ساتھ حکومت کی ۔ سلطنت عثمانیہ کی جدید کاری ان کے دور اقتدار میں جاری رہی۔ بیورو کریسی میں اصلاحات نافذ کروائی۔ روملیا ریلوے اور اناطولیہ ریلوے کی توسیع بغداد ریلوے کی تعمیر اور مجاز ریلوے بھی ان ہی کے دور میں شروع کئے گئے۔ ان کے بارے میں مورخین کہتے ہیں کہ انہوں نے زوال کی جاب رواں دواں سلطنت عثمانیہ کو مستحکم بنانے کی بھرپور کوشش کی اور 33 برسوں تک اسے سنبھالے رکھا۔ وہ سلطان عبدالحمید اول کے فرزند تھے۔ محل میں ہی ان کی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ مختلف زبانیں سکھائی گئیں۔ سلطان عبدالحمید ثانی کو بیک وقت کئی زبانوں بشمول عربی، فرنچ اور فارسی پر غیرمعمولی عبور حاصل تھا۔ حُسن اتفاق سے ان کے بچپن میں ترکی اصلاحات کے ایک دور سے گذ رہا تھا۔ اس دور کو جو 1839ء میں شروع ہوا تھا، ’’تنظیمات‘‘ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے 31 اگست 1876ء کو جب عنان اقتدار سنبھالا تھا۔ اُس وقت خلافت عثمانیہ یا سلطنت عثمانیہ کو داخلی اور خارجی طور پر کئی خطرات و چیلنجس کا سامنا تھا۔ ان کی تخت نشینی کے سال ہی انہوں نے جس تحریری آئینی پر دستخط کئے، اسے ’’قانون اساسی‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس طرح 23 ڈسمبر کو عبدالحمید نے دستوری حکومت کی بنیادیں رکھیں۔ انہوں نے شاندار خارجی پالیسی اپنائی تھی اور دنیا بھر میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں پر قریبی نظر رکھا کرتے تھے۔ ان کا واحد مقصد سلطنت عثمانیہ میں امن و امان کی برقراری اور امن کا حصول تھا۔ وہ ہمیشہ یہی چاہتے ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے عالم اسلام سے تعلقات مضبوط و مستحکم رہیں اور یہی ان کے حکومت کی بنیادی پالیسی اور ترجیح رہی۔ سلطنت عثمانیہ کے سلطانوں یا فرمانرواؤں میں عبدالحمید نے خلیفہ کے ٹائٹل یا خطاب کو بہت زیادہ استعمال کیا۔ سلطان عبدالحمید نے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کیلئے مذہبی اسکالرس یا علماء کو جنوبی آفریقہ اور جاپان جیسے ممالک روانہ کئے۔ انہوں نے دین اسلام پھیلانے اور نوآبادیاتی ملکوں میں مزاحمت کیلئے کام کیا۔ 1903ء میں خلیفہ عبدالحمید نے ہی دمشق موجودہ مملکت شام کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے مربوط کرنے ریلوے لائن کی تعمیر کا حکم دیا جس میں یہ بھی حکم شامل تھا کہ بحر احمر کے مشرقی ساحل پر علاقہ مجاز کو بھی اس لائن سے جوڑا جائے۔ آج بحراحمر کا مشرقی ساحل سعودی عرب کا حصہ ہے۔ واضح رہے کہ خلیفہ کے حکم کے مطابق ریلوے کی تعمیر کا آغاز ہوا جو 8 برسوں میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس طرح ریلوے پٹریاں 1908ء میں مدینہ منورہ تک پہنچ گئیں۔
خلیفہ عبدالحمید نے متوازن معاشی پالیسی بھی اپنائی۔ ان کی اولین ترجیح اس بیرونی قرض کی ادائیگی کو یقین بنانا تھا جو ان کے پیشرو فرمانرواؤں کے دور اقتدار میں حاصل کیا گیا تھا چنانچہ 20 ڈسمبر 1881ء کو انہوں نے یوروپی قرض دہندگان کے ساتھ قرض کا ایک قابل لحاظ حصہ (ایک بڑا حصہ ادا کرنے) کے معاہدہ پر دستخط کئے۔ خلیفہ عبدالحمید نے تعلیمی شعبہ میں بھی اہم اقدامات کئے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں بے شمار پرائمری، سیکنڈری اور ہائی اسکولس قائم کئے۔ یہاں تک کہ معذورین کے اسکولس بھی ان کے دور میں قائم کئے گئے۔ ساتھ ہی فوجی اکیڈیمیوں کا بھی قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ کام ساری سلطنت میں کئے گئے۔
خلیفہ عبدالحمید مغربی موسیقی سے محظوظ ہوتے تھے۔ انہیں اوپیرا اور تھیٹر سے بھی خاص دلچسپی تھی۔ انہوں نے محل کے مصارف میں کافی کٹوتی کی اور سادگی کی زندگی بسر کی۔ 13 اپریل 1909ء کو ان کی حکمرانی سے غیرمطمئن ناراض عناصر کے ایک گروپ نے جو خلافت و بادشاہت کی بجائے ایک دستوری حکومت کے قیام کا خواہاں تھا، استنبول میں بغاوت شروع کردی جس میں بہت خون خرابہ ہوا۔ وہ بغاوت 11 دن تک جاری رہی۔ 27 اپریل 1909ء کو سلطان عبدالحمید کو معزول کردیا گیا اور ان کی جگہ چھوٹے بھائی محمد پنجم کو اقتدار پر بٹھایا گیا۔ معزولی کی رات ہی انہیں دیگر 38 افراد بشمول ارکان خاندان کے ہمراہ قیدی بناکر سیلونیکا (موجودہ ستھیالونیکی) بھیج دیا گیا۔ یہ موجودہ یونان میں ہے۔ اس کے تین سال بعد یکم نومبر 1912ء کو عبدالحمید کو استنبول واپس بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ باسفورس میں واقع بے لربپٹی محل میں زندگی کے آخری ایام گذارے اور 10 فروری 1918ء کو بے لربپٹی محل میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔