خلع کے بعد لڑکی کا جہیز یا سامان واپس کرنا شریعت کا تقاضہ

   

محمد اسد علی ایڈوکیٹ
دین اسلام نے نکاح زوجین اور ان کے ہر معاملے کیلئے جو ہدایتیں دی ہیں ، ان سب کا مقصد یہ ہے کہ ازدواجی رشتہ ہمیشہ کیلئے مضبوط بنا رہے۔ نکاح خاندان سے بنتا ہے اور طلاق یا خلع سے ٹوٹ جاتا ہے۔ نکاح اگر زندگی ہے تو طلاق اس کی موت، زندگی قبول کی ہے تو موت کو بھی گلے لگانے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ زندگی اور موت ، نکاح اور طلاق ، ایک ہی سکہ کے دو رُخ ہے۔ ہر آغاز کا جس طرح اختتام ہوتا ہے، اسی طرح ازدواجی زندگی کے آغاز کا نام ’’نکاح‘‘ ہے اور اس کے اختتام کا نام ’’طلاق‘‘ یا ’’خلع‘‘ ہے، لیکن نکاح اللہ کو جس قدر پسند ہے، اسی طرح طلاق ناپسند ہے، نکاح بڑی نعمت ہے، طلاق اتنی ہی بڑی مصیبت، ایسا کیوں؟ اگرچیکہ آغاز خوشحالی ہے تو اختتام پریشانی کیوں؟ موجودہ دور میں لڑکیوں کی تعلیم ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ لڑکی اگر تعلیم حاصل نہ کرے تو اس کی شادی میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے اور عام طور پر خود لڑکا اور بعض سسرال والے یہ چاہتے ہیں کہ لڑکی تعلیم یافتہ ہو۔

معصوم لڑکیاں شادی شدہ زندگی میں قدم رکھتی ہیں اور ان کو ان باتوں کا علم نہیں ہوتا۔ سسرال کا فرض ہے کہ جو لڑکی شادی کرکے آئے وہ لوگ ان سے اپنی بیٹی جیسا سلوک کریں اور ازدواجی زندگی اور اس کی ذمہ داریاں بھی سکھائیں کیونکہ یہ ماں کے پیٹ یا ماں کے گھر سے سیکھ کر نہیں آتی، اسی لئے وہاں کی ذمہ داریاں کچھ اور ہوتی ہیں اور سسرال کے ذمہ داریاں کچھ اور ۔ اس سے ہٹ کر جو شادی شدہ لڑکیاں ہیں، ان کی زندگیوں میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ اگر ان کا شوہر چھوڑ دے یا انتقال کرجائے تو خاندان کے ذمہ دار افراد کا سہار
ا (Support)
نہیں ملتا۔ اگر لڑکی تعلیم یافتہ ہو تو وہ خود ملازمت کے ذریعہ اپنی اور اولاد کی ذمہ داری نبھاسکتی ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان باتوں کے علاوہ جہیز کے رواج کو بھی تیزی سے بڑھاوا مل رہا ہے اور لڑکی والے اپنی بیٹی کی شادی کیلئے کسی نہ کسی طرح جہیز کی مانگ پوری کرتے ہیں۔ بعض وقت بعض شوہر یا سسرال والوں کی سختی کی وجہ سے لڑکی کو شوہر سے الگ ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جہیز کا رواج بہت قدیم ہے لیکن موجودہ دور میں اس میں اور بھی گنجائش پیدا ہوگئی ہے۔ اگر لڑکی والے جہیز یا رقم دینے سے انکار کرتے ہیں تو اس صورت میں لڑکی کی شادی انتہائی دشوار ہوجاتی ہے اور لڑکی کے والدین انتہائی مجبوری کی حالت میں لڑکے والوں کے تقاضے پورا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض وقت لڑکی والے سودی قرض بھی حاصل کرتے ہیں تاکہ جہیز کی مانگ پوری کی جائے۔ عام طور پر لڑکی والوں سے رقم حاصل کی جاتی ہے اوریہ رقم شادی کی تقریب میں بے تحاشہ خرچ کی جاتی ہے جبکہ سود لے کر رقم حاصل کرنا گناہ کبیر ہے جس کے ذمہ دار وہ لوگ ہوتے ہیں جو لڑکی والوں کو اس پر مجبور کرتے ہیں۔ اہم بات یہی ہے کہ اس رقم سے نہ صرف دھوم دھام کی دعوت کی جاتی ہے بلکہ شاندار پکوان بھی ہوتا ہے جس سے مہمانوں کی ضیافت ہوتی ہے تاکہ مہمانوں کو اپنی دولت کی جھوٹی شان دکھائی جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دعوت میں شریک ہونے والے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے کہ جو فراہم کیا جاتا ہے، وہ انتہائی غیرشرعی نوعیت کا ہوتا ہے اور جب مہمان اسے استعمال کرتے ہیں تو لاپرواہی کی وجہ سے ان کی نامناسب صورتحال میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ بات کس حد تک مناسب ہے کہ لڑکی والوں سے رقم لے کر شاندار دعوت کی جائے۔ جبکہ یہ حرکت انتہائی افسوسناک اور غیرشرعی ہے۔ اس سلسلے میں زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا بلکہ عملی اقدام ضروری ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ اگر لڑکی کا خلع ہوجائے تو اس صورت میں جو سامان یا جہیز دیا جاتا ہے، ازروئے شریعت وہ لڑکی کی ملکیت سمجھا جائے گا اور خلع ہونے کے بعد لڑکی اس کی مالک ہوگی۔ لڑکے والوں کے مطالبہ پر گاڑی یا جوڑے کی رقم دینا انتہائی غیرشرعی ہے اور لڑکی والے معاشرہ کے دباؤ کا شکار ہوکر اس کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس لئے فقہی کتابوں میں اسے رشوت اور ظلم قرار دیا گیا ہے اور لینے اور دینے والے دونوں اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں لیکن لڑکا اس پر قبضہ کرلے تو اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ گاڑی جوڑے کی رقم یا دیگر جہیز کا سامان لڑکی کو لوٹا دے جو لڑکی کا حق ہے ، اگر ایسا نہ ہو تو واپس نہ دینے والا گناہ گار اور حشر کے دن اللہ کے آگے جوابدہ ہوگا۔ بعض موقعوں پر دیکھا گیا ہے کہ بعض لڑکے والے جہیز لینا اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ معاشرہ میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکی کو خلع لینے کے بعد لڑکی کا سامان یا جہیز چھوڑ دینا چاہئے جو شرعی اعتبار سے انتہائی غلط ہے اور یہ جبر قبضہ کے مماثل ہے لہٰذا چند روزہ دنیا کیلئے اگر تھوڑا سے مال یا دولت حاصل ہوتی ہے تو آخرت میں وبال بن سکتا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ شریعت کا لحاظ کرتے ہوئے جہیز یا گاڑی کا مطالبہ نہ کیا جائے اور شادی سے قبل دعوت کیلئے لڑکی والوں سے جوڑے کی رقم (رشوت) نہ لی جائے جبکہ اس قسم کی سرگرمی ایک گناہ قرار پاتی ہے۔ نکاح دو افراد یا خاندانوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ کا نام ہے اور اسی معاہدہ کو توڑ دینے کا نام طلاق ہے، اسی لئے شیطان ، میاں اور بیوی میں پھوٹ پڑنے پر بہت خوش ہوتا ہے چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ ابلیس اپنا تخت اور مرکز پانی پر جماکر زمین کے ہر گوشے میں اپنے شیطانی لشکر کو لوگوں کے گمراہ کرنے کیلئے روانہ کرتا ہے۔ ان سب میں سے ابلیس کے قریب تر وہ ہوتا ہے جس کی گمراہی اور فتنہ بہت بڑا ہو پھر وہ لشکر واپس آکر اپنی اپنی کار گذاری ابلیس کو سناتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ میں نے فتنہ برپا کیا، کوئی کہتا ہے کہ میں نے گمراہی پھیلائی، مگر ابلیس ہر ایک سے یہ کہتا ہے تو نے تو کچھ بھی نہیں کیا پھر ایک آتا ہے اور اطلاع دیتا ہے کہ میں نے ایک جوڑے میں جدائی ڈال دی ہے تو یہ سن کر ابلیس اسے اپنے قریب بلاتاہے اور گلے سے لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ تو نے کام کیا ہے۔ (مسلم، مشکوۃ)
9959672740