دستور پر آخری حملہ

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ

مودی حکومت اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو مسلسل جس طرح کی وارننگ یا انتباہ دے رہی ہے، اس کی علامتیں بالکل صاف اور واضح ہیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی یہ اچھی طرح محسوس کرنے لگی ہیں کہ حکومت ان کے خلاف کیا کررہی ہے اور کیا کرنے والی ہے اور جو کچھ کررہی ہے، وہ کیوں کررہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ چاپلوس مشیران اپنے لیڈروں کو عجیب و غریب مشوروں سے نوازتے ہوئے انہیں روکے رکھ رہے ہیں۔ مہاراشٹرا میں اپوزیشن کے انڈیا اتحاد میں شامل جماعتیں نشستوں کی تقسیم پر گفت و شنید میں مصروف ہیں جبکہ بی جے پی سیاسی لحاظ سے خاصی اہمیت کی حامل اس ریاست (مہاراشٹرا میں) اپوزیشن لیڈروں کے شکار میں مصروف ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اُترپردیش میں جہاں 80 پارلیمانی نشستیں ہیں۔ اکھیلیش یادو کی سماج وادی پارٹی اور کانگریس متحد ہیں لیکن موجودہ حالات سے تو ایسا نہیں لگتا کہ یہ دونوں جماعتیں فی الوقت انتخابی میدان جنگ میں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کود پڑی ہیں یا جنگ میں شامل ہوئی ہیں۔ ہاں فی الحال صرف ریاست ٹاملناڈو ہی ہے جہاں انڈیا اتحاد اور اس کی حریف سیاسی جماعتوں کے درمیان جنگ شروع ہوچکی ہے جس سے ایک کہاوت یاد آئی ہے کہ اچھی شروعات نصف کامیابی ہوتی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 29 ریاستوں میں سے 7 ریاستوں میں تو ایسا لگتا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان راست مقابلہ ہے۔ جنوبی ہند کی اہم ریاستوں کرناٹک، تلنگانہ، گجرات کے ساتھ ساتھ راجستھان، ہریانہ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ٹکرکا مقابلہ ہوگا جبکہ اوڈیشہ اور آندھرا پردیش میں ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی حقیقی انتخابی جنگ نہیں ہوگی۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسی انتخابی جنگ میں بی جے پی کونسے ہتھیار استعمال کرے گی اور اپوزیشن کون سے اسلحہ سے بی جے پی کے ہتھیاروں کا مقابلہ کرے گی۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے، اس نے اس انتخابی جنگ میں اپنے تمام ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا ہے کیونکہ یہ انتخابات نہ صرف بی جے پی بلکہ خود وزیراعظم نریندر مودی کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ بی جے پی کے ہتھیاروں میں سرفہرست ہتھیار رقم کا وہ ڈھیر ہے، جسے اس نے غیردستوری الیکٹورل بانڈس کے ذریعہ حاصل کیا۔ ہمارے سامنے کئی ایسی مثالیں ہیں جہاں مختلف سیاسی جماعتوں بالخصوص کانگریس قائدین کے خلاف دھاوے کرتے ہوئے ان کے مکانات اور دفاتر کی تلاشی لی گئی ؍ گرفتاریاں عمل میں آئیں لیکن جیسے ہی الیکٹورل بانڈ خریدے گئے، ان کے عطیات دیئے گئے پھر بانڈس کو رقم میں تبدیل کرواکر بی جے پی کے اکاونٹ میں جمع کروایا گیا۔ جس کے ساتھ ہی مقدمات دفن کردیں گے یا انہیں (عطیہ دہندگان) کو لائسنسوں کی اجرائی اور کنسٹرکشن میں ترجیح دیتے ہوئے ان کی مدد کی گئی اور اس معاملے میں الیکٹورل بانڈس کی خریدی اور ان بانڈس کو بی جے پی کے حق میں جمع کروانے کی تواریخ ساری کہانی بیان کردیتی ہے کہ کس نے کب اور کتنی رقم کس کو بطور چندہ پیش کیا اور اسے اس کے عوض کیا ملا؟ نئے پراجیکٹس، کنسٹرکشن لائسنس حاصل ہوئے۔ بہرحال ہم بات کررہے ہیں انتخابی جنگ اور اس کے میدان جنگ کی اور اس جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی۔ ایسے میں آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اخبارات، ٹی وی چیانلوں اور بل بورڈس کے ذریعہ ایک بڑی فوج کو تعینات کیا گیا اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بی جے پی فی الوقت غیرمسطح میدان میں کھیل رہی ہے۔
بی جے پی کے ہتھیاروں میں آپریشن لوٹس بھی ایک بہت بڑا اور اہم ہتھیار ہے اور وہ اس ہتھیار کو بڑی ہشیاری سے استعمال کرتی ہے۔ بی جے پی کے ہتھیاروں کی فہرست کا اگر جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے اسلحہ خانہ میں ریاستی حکومتوں کو غیرمستحکم کرنے کا ہتھیار بھی شامل ہے۔ اس بارے میں بناء کسی ہچکچاہٹ و جھجک کے یہ کہا جاسکتا ہے اس کے اسلحہ خانہ میں ایک مہلک ہتھیار ہے اور وہ ہے ’’گرفتاری اور حراست‘‘ اس کے ذریعہ حالیہ عرصہ کے دوران دو ریاستوں کے چیف منسٹروں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ اس سے پہلے ایک ڈپٹی چیف منسٹر سے کئی ریاستی وزراء، چیف منسٹرس کے ارکان خاندان، دیگر سیاسی قائدین اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ واضح رہے کہ سردست پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بی جے پی ارکان پارلیمان کی تعداد 383 ہے جبکہ ملک بھر کی اسمبلیوں میں اس کے 1481 ارکان اسمبلی اور 163 ایم ایل سیز ہیں، ان میں سابق غیربی جے پی ایسے لیڈران بھی شامل ہیں جن پر بدعنوانیوں کے سنگین الزامات عائد کرکے مقدمات دائر کئے گئے تھے لیکن جیسے ہی وہ بی جے پی میں شامل ہوئے۔ انہیں ایک بہت بڑی لانڈری مشین میں ڈالا گیا جس کے ساتھ ہی وہ بدعنوانیوں ؍ اسکامس سے پاک ہوگئے۔ ان کے تمام گناہ و جرائم دھل گئے۔ میں نہیں جانتا اس طرح کے 2027 شخصیتوں ؍ لیڈروں کے خلاف اب کوئی تحقیقات جاری ہے اور اگر بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد بھی تحقیقات جاری ہیں تو یہ شاذ و نادر واقعہ ہوسکتا ہے۔ بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کی جانب سے ریاستی حکومتوں کے کام کاج میں خلل پیدا کرنے گورنروں کو استعمال کیا جارہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گورنر ٹاملناڈو نے ریاستی اسمبلی میں ریاستی حکومت کی تیار کردہ تقریر پڑھنے سے انکار کردیا۔ ایک مرحلے پر تو وہ اسمبلی کی کارروائی سے واک آؤٹ کرگئے۔ حد تو یہ ہے کہ گورنر ٹاملناڈو نے چیف منسٹر اور ان کی کابینہ کی سفارش کے باوجود حکمران پارٹی کے ایک رکن اسمبلی کو ریاستی وزیر کی حیثیت سے حلف دلانے سے بھی انکار کردیا۔ کیرالا، ٹاملناڈو اور مغربی بنگال کے گورنرس نے تو وہاں کے چیف منسٹرس کے ساتھ بحث و مباحثہ کئے، تکرار کی۔ بی جے پی کے ہتھیاروں میں ریاستی حکومتوں کو عدم استحکام سے دوچار کرنا بھی ہے۔ اس کی مثال NCT دہلی حکومت کیک ہے جو آل انڈیا سرویس آفیسرس کے حکم کے تابع ہے۔ یہ ایسے عہدیدار ہیں جو چیف منسٹر اور ڈپٹی چیف منسٹر کی ہدایات کو بھی نظرانداز کردیتے ہیں۔ انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ کیرالا اور مغربی بنگال کو دیئے جانے والے فنڈس کسی نہ کسی بہانے روک دیئے گئے۔ غیربی جے پی ریاستوں کیلئے قرض لینے کی حد میں کمی کردی گئی اور اس کیلئے مختلف شرائط کے بہانے تراشے جارہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ٹاملناڈو کو آفات ِ سماوی کی تباہیوں سے نمٹنے کیلئے جاری کئے جانے والا فنڈ بھی روک دیا گیا ہے۔ اس کے علآوہ مرکزی حکومت اس بات کیلئے بھی اقرار کررہی ہے کہ ریاست کے ڈی جی پی کے تقرر میں یو پی ایس سی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بہرحال آر ایس ایس ۔ بی جے پی ایک ایجنڈہ پر عمل کررہے ہیں۔ آر ایس ایس کے لیڈروں کا سوچنا ہے کہ انہیں لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کیلئے طویل انتظار کرنا پڑا اور یہی اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے لانچ پیاڈ ہونا چاہئے۔ ان کے ایجنڈہ میں ’’ون نیشن ون الیکشن‘‘، ’’یونیفارم سیول کوڈ‘‘، ’’سی اے اے‘‘، ’’حصول اراضی‘‘ قانون میں ترمیمات، زرعی قوانین اور عبادت گاہوں سے متعلق قانون 1991ء کی منسوخی شامل ہیں۔