دنیا خطرہ میں ، اقوام متحدہ بحث و مباحث تک محدود

   

پروین کمال
اس وقت پوری دنیا میں پھیلا معاشی اور سیاسی انتشار جو ظاہر ہے حالیہ جنگ کی وجہ سے ہوا ہے۔ ان مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے گزشتہ مہینے ایک مشاورتی کانفرنس جاپان میں مقرر کی گئی تھی۔ جس کا انعقاد دنیا کی سات بڑی معیشتوں پر مشتمل ممالک “G-7” (گروپ آف سیون) کی طرف سے کیا گیا تھا۔ یہ دنیا کے سب سے دولت مند صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ ان ارکان ممالک کا اتحاد اگرچہ کہ تعداد کے حوالے سے بہت چھوٹا ہے لیکن طاقت اور استحکام کے لحاظ سے اس کی اہمیت ساری دنیا مانتی ہے۔ جی سیون دراصل دنیا کو درپیش معاشی مسائل کی یکسوئی کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس وقت جبکہ 1975 ء میں تیل کی قلت کی وجہ سے دنیا کو مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا تب ان صنعتی ملکوں نے عالمی معیشت پر بات چیت کرنے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ کوئی مناسب حل نکالا جائے۔ اس ضمن میں جن سات ممالک نے قدم آگے بڑھائے وہ تھے یوروپ سے فرانس۔ اٹلی۔ جرمنی اور برطانیہ۔ اس کے علاوہ امریکہ اور کینیڈا اور ایشیا سے صرف جاپان ۔ جاپان کا ماضی دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ دوسری جنگ عظیم میں مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا لیکن جنگ کے اختتام کے بعد اپنی محنت، لگن اور فنی مہارت سے اس نے اقتصادی میدان میں اتنی ترقی حاصل کی کہ آج ساری دنیا اس سے مرعوب ہے اور جی سیون کے جھرمٹ میں اسے نمایاں مقام حاصل ہے۔ گزشتہ مہینے جی سیون میٹنگ جاپان کے ایک شہر ’’ہیروشیما‘‘ میں منعقد ہوئی تھی۔ یہ وہی بم زدہ شہر ہے جس پر 6 اگست 1945 کو محض ہتھیار نا ڈالنے کی پادش میں نو ہزار پونڈ وزنی اور دس فٹ لانبا ایٹم بم ڈالا گیا تھا۔ جو 42 سکنڈ کے اندر پھٹ پڑا اور وہاں موجود انسان اور مویشی جانبر نہ ہوسکے۔ وقت واحد میں پورا شہر جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ ایٹم کے اثرات سے وہاں کی عورتیں برسوں تک معذور بچوں کو جنم دیتی رہیں۔ غرض وہ ایک ایٹمی قیامت تھی۔ جس کو گذرے کم و بیش 78 برس بیت چکے ہیں لیکن آج تک 6 اگست کو جاپانی قوم وہاں جمع ہوکر ماضی کے اس دردناک واقعہ کا سوگ مناتی اور آئندہ کے لئے دعائیں کرتی ہے۔ جی سیون میٹنگ جاپان کے اسی بم زدہ شہر ’’ہیروشیما‘‘ کی سرزمین پر رکھی گئی تھی۔ قابل غور اور لائق تحسین بات یہ ہیکہ ماضی میں جس شہر پر بھارتی بم گرائے گئے تھے اسی شہر میں بیٹھ کر ایٹمی جنگ روکنے کی تدابیر کی جارہی ہیں۔ یعنی انسان اب اتنا حساس اور باشعور ہوچکا ہیکہ امن کی فضاء بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ تعجب ہے۔ تمام ارکان ممالک مل کر ابھی تک یہ نہیں منواسکے کہ آج نہ سہی کم از کم مستقبل قریب میں دونوں ملک جنگ بندی کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ ایسے کوئی آثار و قرائن ابھی تک نظر نہیں آئے۔ جنگی حالات پر قابو پانے کے لئے ایک بہت بڑے ادارے ’’اقوام متحدہ‘‘ کی طرف بھی دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں جس کا قیام دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد 24 اکتوبر 1945 ء کو عمل میں آیا تھا۔ اس کے قائم کرنے کا سب سے بڑا مقصد یہی تھا کہ دنیا میں جنگ وجدل کا خاتمہ کیا جائے۔ ظلم و ستم نہ ہو۔ انسانی حقوق کا احترام ہو اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ غیر ترقی یافتہ ممالک کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں لیکن افسوس یہ مقاصد اور توقعات جن کے لئے اس ادارے کا جنم ہوا تھا خود غرضی اور ناانصافی کی نذر ہوگئے۔ دنیا میں جاری سیاسی اور اقتصادی جنگ میں اقوام متحدہ کا کردار محض بحث و مباحثہ تک محدود ہے حالانکہ اس کے ہاتھ میں اختیارات اور امن و امان قائم کرنے کے بہتر ذرائع موجود ہیں۔ تاہم اس کی کوئی عملی صورت نظر نہیں آتی۔ ترقی کے زینوں پر بجائے اوپر جانے کے نچلی سطح پر آرہے ہیں۔ انسانی جان و مال کے علاوہ فضائی آلودگی کے مضر اثرات سے کب تک دنیا نمٹ سکے گی۔ بم سے خارج ہونے والے زہریلے اثرات صدیوں تک زمین کی رگوں میں پھیلے رہیں گے اور انسانوں کے لئے نئی نئی مصیبتیں کھڑی ہو جائیں گی۔ بڑے ا فسوس کا مقام ہے کہ ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے پر دستخطیں تو کی جاتی ہیں لیکن پھر تھوڑے ہی دن بعد اس سے کہیں زیادہ خطرناک زیادہ نقصان پہنچانے والے ہتھیار تیار کرلئے جاتے ہیں۔ غرض اس وقت دنیا بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ یہ صرف دو ملکوں کی جنگ نہیں بلکہ ساری دنیا کی جنگ ہے کیونکہ یہ دنیا کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طریقے سے ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ لیکن دولت اور اقتدار کی ہوس نے انسانوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔ اس وقت کی دنیا ان حالات میں اپنے آپ کو اور خاندان کو سنبھالتے ہوئے کیسے آگے بڑھی ہو گی وہ ان ہی کا حصہ تھا۔ ماضی کی وہ جنگیں آج کے دور کے لئے بہت بڑی مثال ہیں جس سے کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ اس دور کو بہتر بنانے کے لئے تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ برادرانہ فضا بنائی جاسکتی ہے۔ سمجھوتے کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن ایسا ہو نہیں رہا اور ان حالات کا اثر بے گناہ انسانوں کی زندگیوں پر پڑ رہا ہے۔ انتہائی صدمہ ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ زدہ ملکوں سے بے یار و مددگار لوگ رخت سفر باندھ کر اپنے ملک سے نکل جاتے ہیں کہ موقع پاتے ہی کسی بھی ملک میں داخل ہو جائیں گے لیکن بارڈر پار کرکے کسی ملک میں داخل ہونا کوئی آسان کام تو نہیں۔ مہینوں منفی درجہ حرارت میں کانپتے ہوئے تار کانٹوں کی دیوار کے پاس اس امید میں پڑے رہتے ہیں کہ شائد موقع مل جائے۔ ان کے چہروں پر حسرت و پاس کی جو کیفیت طاری رہتی ہے دیکھ کر مضبوط دل انسان کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کی بارش رواں ہو جائے۔ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے انہیں واپس بھیجنے کا تقاضہ کیا جارہا ہے لیکن ان کے ملک تو کھنڈر بن چکے ہیں ان حالات میں انہیں کہاں سہارا ملے گا۔