دنیا کے تمام مسلمانوں کی طرف سے قطر کےامیر تمیم بن حمدالثانی کو سلام

   

پروفیسر شمیم علیم
فٹبال کے عالمی شہرت یافتہ فیفا ورلڈ کپ 2022ء کی افتتاحی تقریب نے ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ مغربی ممالک تو سکتہ میں آگئے۔ قطر جیسے چھوٹے سے ملک نے جس کا رقبہ صرف 11,581 کیلومیٹر اور آبادی 27,95,484 ہے، اس نے اتنی ہمت کیسے کی کہ اسلام کی تشہیر کا ایک انوکھا طریقہ دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ دنیا میں فٹبال ورلڈ کپ 1930ء سے ہوتا آرہا ہے، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کسی عرب ملک نے اس کی میزبانی کی ہے۔ آج سے 12 سال پہلے جب قطر نے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی قبول کی تو کئی گوشوں سے اس کے خلاف آواز اٹھنے لگی تھیں۔ قطر کے پاس اس وقت تک مقابلوں کے انعقاد کیلئے ایک اسٹیڈیم بھی موجود نہیں تھا لیکن یہ امیر قطر تمیم بن حمدالثانی کی دور اندیشی اور ویژن کا نتیجہ ہے کہ آج ایک چھوٹا سا ملک ساری دنیا میں اسلام کی شعاعیں بکھیر رہا ہے۔ پچھلے بارہ سال کی انتھک محنت کا نتیجہ صرف بے حد وسیع اور خوبصورت اسٹیڈیمس ہی نہیں ہیں بلکہ امیر قطر نے قطر کی شکل و صورت ہی بدل کر رکھ دی اور لوگوں کو یہ الگ ہی ملک نظر آنے لگا۔ یہاں کی سڑکیں، پارکس ، بلند و بالا عمارتیں ، ہوٹلس قابل تعریف ہیں۔ ہر عمارت بے حد خوبصورت اور نئے طرز کی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے ان اسٹیڈیمس کو Folding Stadiums کی شکل دی گئی تاکہ آئندہ اس کا استعمال دوسرے ملکوں میں بھی کیا جائے۔ قطر نے انہیں بنانے میں 229 بلین ڈالرس خرچ کرڈالے۔ اب تک ورلڈ کپ کے انعقاد کیلئے کسی بھی میزبان ملک نے زیادہ سے زیادہ 20 بلین ڈالرس ہی خرچ کئے تھے۔قطر نے جو اس کھیل پر اتنی دولت خرچ کی تو کیا اس کا مقصد صرف ورلڈ کپ کا انعقاد تھا؟ میرے خیال سے یہ امیر قطر کی دور اندیشی تھی کہ انہوں نے فیفا ورلڈ کپ کے انعقاد کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا ایک ذریعہ بنایا۔ آج کل ساری دنیا میں اور خاص کر مغربی ممالک میں اسلاموفوبیا پھیلا ہوا ہے۔ قطر نے اس ایونٹ کے ذریعہ برسوں سے جاری اسلاموفوبیا کا اسلامی تعلیمات کی تشہیر کے ذریعہ موثر جواب دیا۔ میچس شروع ہونے سے پہلے ہی حکومت قطر نے واضح کردیا تھا کہ اس کھیل کی میزبانی کی خاطر ہم اپنے دین (اسلام ) اور کلچر کو نہیں بدل سکتے۔ ملک اور جگہوں پر شراب نوشی، ہم جنس پرستی اور نیم برہنہ کپڑوں سے متعلق حکومت ِقطر نے صاف کہہ دیا کہ محض 28 دنوں کیلئے ہم اپنے مذہب (اسلام) اور ثقافت کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ ہم اپنے مذہب اور ثقافت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے جو ہمارے اصولوں کے خلاف ہو۔
آج تک جہاں بھی ورلڈ کپ کا اہتمام کیا جاتا تھا، وہاں لوگوں کو شراب و کباب سے خوش آمدید کہا جاتا تھا لیکن قطر نے عوام کا استقبال عطر لگاکر اور کھجور کھلاکر کیا۔ کھیل کی افتتاحی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا اور جن آیتوں کا انتخاب کیا گیا، اس کے ذریعہ عوام کو یہ پیغام دیا گیا کہ اسلام ایک پیارا ، حکمت سے بھرپور اور انسانوں کے تمام مسائل کا حل پیش کرنے والا ایک دین ہے۔ انسان چاہے کسی بھی ملک اور نسل کے ہوں، وہ سب برابر ہیں۔ ان میں کوئی تفریق نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ رہی کہ قرآن پاک کی تلاوت ایک 20 سالہ اپاہج لڑکے غانم المفتاح نے کی جس کے جسم کا آدھا حصہ نہیں ہے یعنی اس کے دونوں پیر نہیں ہیں۔ وہ لڑکا اپنی مثال خود آپ ہے۔ اس کی آواز بے حد دلکش ہے۔
اب تک جتنے بھی ورلڈ کپ ہوئے، اس میں یہ اُصول تھا جب ایک مرتبہ کھیل شروع ہوجائے تو پھر میچ روکا نہیں جاسکتا لیکن قطر میں اذان کی آواز آتے ہی میچ روک دیا جارہا ہے اور لوگ نماز ادا کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں اور جو لوگ نماز نہیں پڑھتے، وہ بھی خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں۔
جب لوگ میچ کے اختتام پر واپس جانے لگتے ہیں تو قطر کے عوام اپنی تہذیب و تمدن کا نمونہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ لوگ نہایت گرمجوشی سے مہمانوں سے ملتے ہیں۔ انہیں قہوہ پیش کیا جارہا ہے۔ بچے اور بڑے مختلف قسم کے کھانے کی چیزیں لئے نظر آتے ہیں اور نہایت محبت سے مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں اور اس طرح پیار و اپنائیت کا رشتہ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے جو دراصل دین اسلام کا آفاقی پیغام ہے۔ اسلام کی تشہیر کیلئے اتنا زبردست انتظام کیا گیا کہ لوگ حیرت زدہ ہوگئے۔ قطر کی دیواروں پر بڑے بڑے خوبصورت پوسٹرس لگائے گئے جس میں قرآن حکیم کی آیات اور اس کا ترجمہ لکھا ہوا تھا۔ جگہ جگہ اسلامی ادب کا خزانہ موجود تھا جو مفت میں سب کو تقسیم کیا جارہا تھا۔ یہ کئی زبانوں میں تھا۔ دوسری خاص بات یہ تھی کہ جگہ جگہ ایسے افراد متعین کئے گئے تھے جنہیں مذہبی اور علمی معلومات تھیں اور یہ لوگ مہمانوں سے بات چیت کرکے اسلام کا رخ روشن دکھا رہے تھے تاکہ ان کے ذہنوں سے اسلاموفوبیا کو دُور کیا جاسکے۔
اگر ذرا سنجیدگی سے سوچا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہ 12 سال کی انتھک جدوجہد اور کڑی محنت کا مقصد صرف فٹبال اسٹیڈیم بنانا نہیں تھا بلکہ ساری دنیا کے انسانوں کے سامنے اسلام کی انسانیت نواز تعلیمات پیش کرنا تھا۔ دین اسلام تمام انسانوں کو محبت و حکمت سے جوڑتا اور ان میں بھائی چارہ پیدا کرتا ہے۔ قطر آج تمام مسلم ملکوں کیلئے ایک مثال بن کر ابھرا ہے۔ کاش! آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (OIC) کے تمام رکن ممالک اسی راستہ پر چلتے تو اسلام ساری دنیا میں پھیلتا۔ ایک مرتبہ پھر امیر قطر تمیم بن حمدالثانی اور قطر کے عوام کو تہہ دل سے مبارکباد پیش ہے۔