دودھ کی بجائے شکر ملا پانی بچوں کو دیا جارہا ہے

   

ہرش مندر
ہندوستان میں 23 مارچ کی درمیانی شب سے لاک ڈاون نافذ کیا گیا جسے دنیا میں جسمانی نقل و حرکت اور اقتصادی سرگرمیوں کو پوری طرح ٹھپ کرنے والے سخت ترین لاک ڈاونس میں سے ایک قرار دیا گیا اس لاک ڈاون کا مقصد کووڈ ۔ 19 کی وباء پر قابو پانا ہے۔
لاک ڈاون نافذ کئے جانے کے تین ہفتوں بعد پھنسے ہوئے ورکروں سے متعلق اسٹرانڈیڈ ورکرس ایکشن نٹ ورک یا SWAN نے ایک سروے کا اہتمام کیا جس میں نقل مکانی کرنے والے 11,159 مزدوروں سے بات کی گئی۔ اس سروے کے بارے میں انگریزی کے موقر روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ میں بھی خصوصی رپورٹ کی اشاعت عمل میں آئی۔ اگر دیکھا جائے تو لاک ڈاون نے مختلف مقامات پر پھنسے ہوئے مائگرینٹس ورکروں کے لئے شدید تکلیف کا دروازہ کھول دیا ہے۔

سروے میں انتہائی شدید اور بھوک کے فوری بحران کا انکشاف ہوا۔ سروے سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ ان ورکروں میں سے 50 فیصد کے پاس صرف ایک دن کا راشن باقی رہ گیا۔ SWAN کی ٹیم نے جن مزدوروں سے بات کی ان میں سے 72 فیصد نے بتایا کہ ان کے پاس جو راشن ہے وہ دو دن میں ختم ہو جائے گا۔ ساتھ ہی ان کے پاس معمولی رقم بچ گئی ہے جسے قابل نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے ان میں دوسرے وقت کے کھانے کے بارے میں غیر یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ان ورکروں کو غیر یقینی نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ کئی مزدوروں کھانے کے معاملہ میں بھی کفایت شعاری سے کام لے رہے ہیں۔ بنگلورو میں پھنسے ہوئے 240 ورکروں نے SWAN کو بتایا ’’ہمارے پاس جو غذائی اجناس ہیں اسے بچانے کی خاطر ہم لوگ دن میں صرف ایک مرتبہ کھانا کھا رہے ہیں۔

کئی ایسے کیسیس ہیں جہاں جو لوگ پہلے ہی سے فاقہ کشی کی کگار پر پہنچ چکے ہیں۔ بہار سے تعلق رکھنے والا ایک ورکر سجیت کمار پنجاب کے بھٹنڈا میں پھنسا ہوا ہے۔ ہمارے والنٹیرس نے جب اس سے بات کی وہ چار دن کا بھوکا تھا۔ نوئیڈا کی رہنے والی ایک دسویں جماعت کی طالبہ یاسمین نے بتایا ’’ہمارے گھر میں چار شیر خوار بچے ہیں جن کے لئے دودھ کی ضرورت ہے دودھ نہ ہونے کے باعث آج کل ہم انہیں شکر میں ملاہوا پانی پلا رہے ہیں‘‘۔
طویل قطاریں : 96 فیصد مزدوروں کو حکومت سے راشن حاصل نہیں ہوا جبکہ 70 فیصد مزدوروں کو کسی بھی ذریعہ سے پکا ہوا کھانا حاصل نہ ہوسکا مظفر پور بہار کے رہنے والے سریش دہلی میں ایک تعمیراتی مزدور ہے اسے بعض مرتبہ سرکاری غذائی مرکز میں پکے ہوئے کھانے تک رسائی حاصل ہوئی لیکن اس نے بتایا ’’کھانا حاصل کرنے کے لئے اُس مرکز پر لمبی قطاریں ہوتی ہیں اور جب ہماری باری آتی ہے تو کھانا ختم ہوچکا ہوتا ہے۔دل محمد جو ڈرائیور کی حیثیت سے کام کرتے ہیں بتایا کہ وہ کھانا فراہم کرنے والے مرکز گئے اور اپنے دو بچوں کے لئے کھانا حاصل کرنے چار گھنٹوں تک قطار میں کھڑے ہے لیکن جب ان کی باری آئی تب تک کھانا ختم ہوچکا تھا انہیں صرف چار کیلوں پر اکتفا کرنا پڑا اور وہ اسے بھی غنیمت سمجھ کر لے آئے۔

سروے کے دوران یہی دیکھا گیا کہ اکثر ورکروں کے پاس جہاں کھانے کی اشیاء نہیں تھیں وہیں پیسے بھی تقریباً ختم ہوچکے تھے۔ 78 فیصد مزدوروں کے پاس 300 روپے سے بھی کم رقم باقی رہ گئی تھی جبکہ 70 فیصد مزدوروں کے پاس 200 روپے سے بھی کم رقم باقی رہ گئی۔ (یہ رقم یومیہ اجرت سے بھی بہت کم ہے) حیرت کی بات یہ ہے کہ لاک ڈاون کی مابقی مدت تک ان مزدوروں کو اسی رقم پر اکتفا کرنا ہے۔ مظفر پور بہار سے تعلق رکھنے والی افسانہ خاتون حیدرآباد میں پھنسی ہوئی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ انہیں ایک سالہ بیٹی ہے اور شوہر ذہنی طور پر دباؤ کا شکار ہے۔ دونوں کے لئے ادویات خریدنا ضروری ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ادویات کی خریدی کے لئے بھی ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
سروے میں اس بات کا بھی پتہ چلا کہ تقریباً 98 فیصد مزدوروں کو حکومت سے کوئی راحت نہیں ملی، 89 فیصد نے بتایا کہ لاک ڈاون کے دوران آجرین نے ان کی تنخواہیں ادا نہیں کی۔ تقریباً 9 فیصد کو جزوی طور پر تنخواہ دی گئی۔ جن لوگوں کو آجرین نے راشن دیا یہ کہتے ہوئے دیا کہ بعد میں تنخواہوں کی ادائیگی کے وقت راشن کی رقم کاٹ لی جائے گی بعض ورکروں کو تو حکام سے شکایت کرنے پر دھمکیاں تک دی گئیں۔شدید مشکلات۔ لاک ڈاون کے دوسرے مرحلہ میں SWAN کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ مزدوروں کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔ 50 فیصد ورکرس کے پاس ایک دن سے بھی کم کا راشن باقی رہ گیا۔ 46 فیصد ورکروں کے مطابق ان کے پاس رقم ہے نہ غذائی اشیاء ہر 5 میں سے 4 افراد کو دوسرے مرحلہ کے لاک ڈاون میں راشن حاصل نہ ہوا۔ 64 فیصد کے پارس 100 روپے سے بھی کم رقم باقی رہ گئی ہے جبکہ 74 فیصد کے پاس نصف تنخواہ بچ گئی ہے اور اس رقم پر انہیں لاک ڈاون کی مابقی مدت پر اکتفا کرنا پڑے گا۔

سروے میں یہ انکشاف ہوا کہ لاک ڈاون کی مدت کے دوران صرف 5 فیصد کو مکمل تنخواہ دی گئی اور 16 فیصد کو جزوی طور پر تنخواہیں ادا کی گئیں۔ اس کے برعکس 78 فیصد مزدوروں کو ان کے آجرین نے کوئی رقم نہیں دی جبکہ پہلے مرحلہ میں 89 فیصد ورکروں کو تنخواہ نہیں دی گئی اس طرح خود روزگار کے حامل 99 فیصد کو لاک ڈاون کے دوران کسی قسم کی آمدنی نہیں ہوئی۔اکتالیس فیصد نے بتایا کہ وہ جس شہر میں ہیں وہیں ٹہریں گے کرایہ کی عدم ادائیگی کے باعث ان میں پریشانی اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ قرض کا بوجھ بھی بڑھ گیا ہے اسی کے ساتھ ہی سفر کرنے اور گھر میں تک بقاء کو یقینی بنانے رقم نہیں ہے۔
ایک تہائی ورکروں نے بتایا کہ وہ اس آجر کے ساتھ کام کریں گے جس کے ساتھ اب تک کرتے آرہے ہیں۔ اور پہلے کا کام ہی کریں گے۔ دوسرے ایک تہائی ورکروں کا کہنا تھا کہ آگے کیا کریں اس بارے میں وہ کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ 16 فیصد اپنے آبائی مقامات کے لئے روانہ ہونے اور پھر واپس ہونے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ تقریباً 13 فیصد اپنے آبائی مقامات پر کام کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور 5 فیصد چاہتے کہ کچھ کمائی کریں اور آبائی مقام کے لئے روانہ ہوجائیں۔

مزدوروں میں یہ بھی احساس پایا جاتا ہے کہ ان کا کوئی احترام نہیں کیا جاتا۔ ان کے وقار کا خیال نہیں پایا جاتا جس سے ان میں مایوسی اور برہمی پائی جاتی ہے۔ ممبئی میں کام کرنے والے جھارکھنڈ کے ایک ورکر کا کہنا تھا کہ مودی حکومت مزدوروں کے ساتھ باوقار انداز میں پیش نہیں آرہی ہے وہ ورکر مزید کہتا ہے ’’مودی کی نظروں میں ہم کیڑے ہیں ویسی ہی موت مریں گے۔ لاک ڈاون کے ایک ہفتہ میں ہی پرشانت بھوشن اور چیرل ڈیسوزا نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کے تحت ایک درخواست داخل کی جس میں نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کے لئے دستور ہند کی دفعہ 19 کے تحت باوقار زندگی کا حق برقرار رکھنے کی درخواست کی۔ یہ ایسے ورکرس ہیں جو لاک ڈاون کے اچانک نافذ کئے جانے سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ درخواست گذار راقم الحروف اور انجلی بھردواج تھیں۔

درخواست میں عدالت عظمیٰ کو بتایا گیا کہ لاک ڈاون سے شدید انسانی بحران پیدا ہوا۔ ان حالات میں مرکزی اور ریاستی حکومتیں مشترکہ طور پر تمام ورکروں کو اندرون ہفتہ اقل ترین تنخواہوں کی ادائیگی کو یقینی بنائیں یہ نہ دیکھا جائے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا ملازم ہے یا کسی کنٹراکٹر کے لئے کام کرتا ہو یا پھر خود روزگار سے جڑا ہوا ہو۔ درخواست میں یہ بھی التجا کی گئی کہ اس کے لئے مزدوروں کو ان کی اپنی تصدیق اور خود شناخت کا حق دیا جائے تاکہ حکومت سے تنخواہیں حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ جواب میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس نے 1.70 لاکھ کروڑ روپے مالیتی راحتی پیاکیج کا اعلان کیا جس پر درخواست گذاروں نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ حکومت کا یہ پیاکیج قومی مجموعی پیداوار کا صرف ایک فیصد ہے اور اس بحران سے نمٹنے بالکل ناقص ہے۔