دوسری کورونا لہر میں دریائے گنگا میں نعشوں کو پھینکا گیا

,

   

نئی دہلی : کوویڈ کی تباہ کن دوسری لہر کے دوران دریائے گنگا نعشوں کو ٹھکانے لگانے کا آسان مقام بن گیا تھا اور یہ مسئلہ اترپردیش تک محدود نہیں رہا۔ ایک نئی کتاب میں یہ بات سامنے آئی ہے، جسے گزشتہ روز جاری کیا گیا۔ دریائے گنگا سے متعلق موضوعات پر گنگا کی صفائی کے قومی مشن کے ڈائرکٹر جنرل راجیو رنجن مشرا کی تحریر کردہ کتاب میں کہا گیا کہ اترپردیش کے حدود کے آگے بہار کے کئی علاقوں میں بھی کورونا سے فوت ہونے والوں کی نعشوں کو گنگا میں پھینکا جاتا رہا۔ راجیو مشرا 1987 ء بیاچ کے تلنگانہ کیڈر کے آئی اے ایس آفیسر ہیں۔ اُنھوں نے گنگا کی صفائی کے قومی مشن کے کئی عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں۔ نمامی گنگا کے سربراہ کی حیثیت سے بھی راجیو مشرا نے ذمہ داری نبھائی ہے۔ وہ 31 ڈسمبر 2021 ء کو سبکدوش ہونے والے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی کتاب میں ایک باب وبائی دور کی اُس مدت کے لئے مختص کیا ہے جب گنگا کو لوگوں نے میلی کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ اُنھوں نے لکھا کہ کورونا سے فوت مریضوں کی نعشیں بلاتردد گنگا میں پھینکی جاتی رہیں۔ کوویڈ لہر میں عروج کے وقت اموات بڑھتی گئیں اور ضلعی انتظامیہ کو شمشان گھاٹوں پر انتظامات میں کافی مشکلات پیش آئیں۔ اِس بحران میں اترپردیش اور بہار کے کئی علاقے جو دریائے گنگا سے متصل ہیں، وہاں کورونا سے فوت ہونے والوں کی نعشوں کو لوگوں نے گنگا کے سپرد کردیا۔ محتاط اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 300 نعشیں دریا میں پھینکی گئیں جبکہ بعض دیگر ذرائع نے یہ تعداد ایک ہزار سے زیادہ بتائی ہے۔ راجیو مشرا نے اپنی کتاب میں تحریر کیاکہ یہ اُس وقت کی بات ہے جب وہ کوویڈ سے متاثر ہوئے اور گروگرام کے میدانتا سوپر اسپیشالیٹی ہاسپٹل میں زیرعلاج تھے، تب اُنھوں نے سنا کہ گنگا میں ادھ جلی، سڑی ہوئی یا لاوارث نعشیں سطح آب پر دکھائی دے رہی تھیں۔ اوائل ماہ مئی میں دوسری لہر عروج پر تھی۔ راجیو مشرا نے تمام 59 ڈسٹرکٹ گنگا کمیٹیوں سے رابطہ قائم کیا اور گنگا کی سطح پر دستیاب نعشوں سے نمٹنے کی ہدایت دی۔ اُنھوں نے یوپی اور بہار سے اِس مسئلہ پر تفصیلی رپورٹ بھی طلب کی۔ یوپی کے ایک سینئر عہدیدار نے ایک میٹنگ میں مرکزی عہدیداروں کو بتایا تھا کہ ریاست کے وسطی اور مشرقی علاقوں میں نعشوں کو دریا میں بہادینے کا رواج ہے۔ تاہم اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لوگ کورونا مرض اور اُس سے فوت ہونے والے مریضوں سے اِس قدر خائف تھے کہ وہ نعشوں کی آخری رسومات انجام دینے سے تک گریزاں تھے۔ اِس لئے دریائے میں نعشوں کی دستیابی کو محض رواج سے منسوب نہیں کیا جاسکتا کہ نعشوں کو بہادیا جاتا ہے۔